Monday, May 7, 2012

تعلق

-تعلق زندگی کا حصہ نہ ہو تو زندگی ایک ایسا مجرّد لفظ ہے جس کا کوئی مفہوم نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زندگی دراصل تعلق ہی سے زندگی بنتی ہے۔ تعلق نہ ہو تو انسان حیوانوں سے کیا حشرات الارض بلکہ پیڑ پودوں سے بھی بدتر ہے۔ اس لیے کہ حیوانات، حشرات الارض اور پیڑ پودے تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرکے زندہ رہتے ہیں۔ جدید سائنس بتاتی ہے کہ پیڑ پودے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ وہ میلوں کے فاصلے پر موجود پیڑ پودوں کو خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسلام تعلق پر اتنا اصرار کرتا ہے کہ تعلق خود دین بن جاتا ہے۔ مثلاً اسلام بتاتا ہے کہ اس کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ چنانچہ اس ذات سے تعلق استوار کرنا اور اس تعلق کو زندگی کی آخری سانس تک نبھانا انسان کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ اس تعلق کی اہمیت یہ ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کا جیسا تعلق ہوتا ہے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے۔ خدا کے ساتھ انسان کا تعلق ہو تو عام انسان ’’مسلمان‘‘ کہلاتا ہے۔ مسلمان مزید ترقی کرے تو ’’مومن‘ بن جاتا ہے۔ مومن کو تاریخ نے اکثر ’’شہید‘‘ اور ’’صدیق‘‘ بنتے دیکھا ہے۔ ’’خلیفتہ الارض‘‘ کے منصب پر فائز ہوتے دیکھا ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق نہ ہو تو اتنے بلند مقامات پر فائز ہونے کی اہلیت رکھنے والا انسان ’’کافر‘‘ کہلاتا ہے۔ مشرک پکارا جاتا ہے۔ دنیا اسے ’’منافق‘‘ کہتی ہے۔ اسے ’’فاسق‘‘ اور ’’فاجر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق کی نوعیت انسان اور اس کی زندگی کی معنویت کو یکسر تبدیل کردیتی ہے۔ اقبال نے اپنی نظم جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے وہ بات کہلوائی ہے جو ان کی نظم ہی کا نہیں ہمارے زندگی کا بھی مرکزی خیال ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎ کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ تعلق کو مجرد نہیں رہنے دیا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو ایک نمونہ اور ایک معیار بنادیا ہے اور کہا ہے کہ جو شخص اس نمونے کے جتنے زیادہ قریب ہوگا وہ خدا سے بھی اتنا ہی قریب ہوگا۔ چنانچہ اقبال کے اس شعر میں ’’وفا‘‘ کا مفہوم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ہے۔ یہ تعلق اتنی بڑی چیز ہے کہ اس کے بعد دنیا کیا اس کائنات کی اہم ترین چیزیں بھی انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ مثلاً لوح محفوظ ایک ایسی چیز ہے کہ انسان ازخود اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور آپؐ سے محبت ایسی چیز ہے کہ وہ لوحِ محفوظ تک انسان کی رسائی کو ممکن بنادیتی ہے۔ یہ خدا سے مسلمانوں کا تعلق ہی ہے جس نے انسانی تاریخ میں جہاد کی سب سے بڑی روایت پیدا کی، جس نے حضرت عمر فاروقؓ اور ان کے بعد کے زمانوں میں دنیا کی سب سے بڑی مملکت تخلیق کی۔ یہ خدا، اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق ہی ہے جس نے صرف چودہ سو برسوں میں تقریباً پونے دو ارب اہل ایمان دنیا کو دیے ہیں۔ یہ تعلق ہی ہے جو ماں باپ کی خدمت کے ذریعے اولاد کو جنت کا مستحق بناتا ہے۔ افلاطون نے فلسفے کو ’’دانش کی محبت‘‘ کہا ہے۔ یعنی روایتی معنوں میں فلسفہ کبھی دانش کے ساتھ شدید تعلق کی ایک صورت تھا۔ اس تعلق نے سقراط کو جنم دیا۔ سقراط سے پہلے فلسفہ جو خواص بلکہ خواص الخواص کی میراث تھا لیکن دانش سے سقراط کے تعلق کی نوعیت نے فلسفے کو عوام تک پہنچا دیا۔ اس کام کے لیے سقراط نے اپنی زندگی وقف کردی۔ وہ ہر روز گھر سے نکل کر کوچۂ و بازار کا رخ کرتا۔ وہ عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو روکتا اور ان سے زندگی کے اہم ترین موضوعات پر گفتگو کرتا۔ وہ پوچھتا تمہاری نظر میں خیر کیا ہے؟ تمہارے نزدیک حسن کا مفہوم کیا ہے؟ لوگ سقراط کو اپنے خیالات سے آگاہ کرتے۔ سقراط ان کی باتیں توجہ سے سنتا اور پھر وہ انہیں بتاتا کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ دانش کی محبت نے سقراط کو انسانی تاریخ کے عظیم ترین لوگوں میں شامل کردیا۔ اس کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کم و بیش تین سو سال پہلے کا ہے مگر سقراط آج بھی ’’پرانا‘‘ نہیں ہے۔ سقراط کی شخصیت اور فکر نے افلاطون کو پیدا کیا اور افلاطون کے بارے میں وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر کے حاشیے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میر تقی میر دنیا کے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں اور ان کی شاعری ان کے عشق کا حاصل ہے جو تعلق کی شدید ترین صورت ہے۔ میر کے اس تعلق نے ان سے چھ ضخیم دیوان لکھوائے۔ یعنی ایک تعلق نے لاکھوں خیالات، جذبات، احساسات اور ان کے ہزاروں سایوں کو جنم دیا، اور میر نے یہ کام ایک ایسے دور میں کیا جب اردو کے خدوخال پوری طرح واضح نہیں تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ میر نے اردو کو اردو بننے میں مدد دی۔ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ بسا اوقات اس کے لیے پوری قوم کم پڑ جاتی ہے۔ میر کو اپنے اس کارنامے کا احساس تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے ؎ ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے معتقد کون نہیں میر کی استادی کا میر کی شاعرانہ عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے بعد آنے والے ہر شاعر نے ان کے شاعرانہ کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ کہنے والوں نے کہا ہے کہ میر کے بعد اردو کا جو شعر میر کی شعریات میں پیوست نہیں اس کا ’’نسب‘‘ مشتبہ ہے۔ میر کو خود بھی معلوم تھا کہ ان کی شاعرانہ عظمت کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ہے ؎ جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا میر کا یہ ’’اعلان‘‘ خود پسندی نہیں۔ اردو جب تک زندہ رہے گی میر زندہ رہیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ میر کا یہ مقام ’’تعلق‘‘ کا حاصل ہے۔ جان کیٹس انگریزی کے چار عظیم شاعروں میں سے ایک ہے۔ لیکن کیٹس کی شاعری صرف اس کی عظمت کے معنوں میں ’’معجزانہ‘‘ نہیں ہے، اس کی شاعری کا یہ پہلو بھی ’’معجزانہ‘‘ ہے کہ کیٹس نے 24 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور 27 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح اس کی شاعری کی عمر بمشکل ساڑھے تین یا چار سال بنتی ہے۔ اس کی شاعری ’’مقدار‘‘ میں بھی کم نہیں ہے۔ کیٹس کی کلیات ضخامت میں میر تقی میر کی کلیات سے ذراسی ہی کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، فینی برائون سے کیٹس کی محبت۔ اس محبت نے کیٹس کے خطوط تک کو شاعرانہ بنا دیا ہے۔ ان خطوط کو پڑھ کر خیال آتا ہے کہ فینی برائون ایک شمع ہے اور کیٹس اس کے گرد طواف کرتا ہوا پتنگا۔ اقبال کا معاملہ میر اور کیٹس سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ اقبال کی محبت امت مسلمہ ہے۔ اس کا شاندار ماضی ہے۔ ان کا تعلق امت مسلمہ کے شاندار ماضی کی بازیافت ہے۔ یہ تعلق اقبال کے پورے وجود کو گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اقبال نے اس تعلق پر اپنے وجود کی پوری قوت صرف کردی ہے۔ تب کہیں جاکر وہ شاعری پیدا ہوئی جسے حکیم الامت یا شاعر مشرق کی شاعری کہا جاتا ہے۔ میر، کیٹس اور اقبال کی شخصیت اور شاعری کو دیکھ کر رئیس فروغ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے ؎ عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے تعلق کا کمال یہ ہے کہ وہ ’’دوسرے’’ کو انسان کے لیے اتنا اہم بنا دیتا ہے کہ انسان اس کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلق خود پسندی، خود غرضی اور ایسے ہی دیگر حقیر اور منفی جذبوں کو فنا کردیتا ہے۔ تعلق انسان کو لینے والے کے بجائے دینے والا بناتا ہے۔ شکایت کرنے والے کے بجائے شکر کرنے والا بناتا ہے۔ تعلق کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ انسان سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن اپنے بچپن کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن میں انسان کا تعلق حقیقی، خالص، شدید اور گہرا ہوتا ہے۔ چنانچہ بچپن کی یادیں بھی حقیقی، خالص، شدید اور گہری ہوتی ہیں۔ چنانچہ انسان کو بچپن کی محبتیں ہی نہیں حماقتیں تک حسین لگتی ہیں اور انسان ساری زندگی انہیں یاد کرتا رہتا ہے۔ لیکن انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے تعلق کے حوالے سے اس کی استعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر انسان پختہ عمر میں خدا یا انسانوں کے بجائے مادی چیزوں کی جانب زیادہ راغب ہوجاتا ہے۔ ہمارے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس نے مادیت پسندی کو ’’ذمے دارانہ طرز عمل‘‘ بناکر اسے تقریباً ایک فلسفے کی شکل دے دی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کروڑوں لوگ مادی فائدوں کے لیے انسان کیا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کو بھی ترک کررہے ہیں۔ بلاشبہ مادی دنیا کے ساتھ تعلق بھی تعلق ہی کی ایک صورت ہے لیکن مادی دنیا کے ساتھ تعلق مردہ چیزوں کے ساتھ تعلق ہے جو انسان کی توہین ہے۔ اس لیے کہ انسان زندہ ہے اور زندہ کا تعلق اپنے جیسے زندوں سے ہونا چاہیے۔ زندہ کا اپنے جیسے زندہ سے تعلق انسان کی توقیر ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ زندہ ہیں اور خدا سب سے زیادہ زندہ یا حیی ہے اس لیے ان سے انسان کا تعلق انسان کی سب سے بڑی سعادت ہے۔

No comments:

Post a Comment