Wednesday, May 16, 2012

ٹیپو سلطان کی شہادت

 مئی کا مہینہ شہیدان محبت کے امام‘حریت کے پروانے ”سلطان ابوالفتح علی ٹیپو“کی شہادت کا مہینہ ہے ۔ جس نے غیرملکی اقتدارکوروکنے کے لیے اپنی پوری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں میں بسرکی۔ وطن کوغیرکی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا آرام چین بھلادیا اور اپنی زندگی اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کردیا اور آخرکار خود بھی مردانہ وارلڑتاہوا شہیدہوگیا سلطان ٹیپوکی شہادت پرلارڈہارس بے اختیارپکاراٹھاکہ ”آج ہندوستان ہماراہے“ تمام بڑے مورخ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ 1764ءمیں سندھیا کی وفات کے بعدانگریزہندوستان کی سرزمین پرمکمل قبضہ کی راہ میں صرف ایک شخصیت کو اپنا حریف سمجھتے تھے اوروہ تھا میسورکا مسلم فرمانروا ”ٹیپوسلطان“ ہندوستان کو غلامی سے بچانے کے لیے ٹیپو نے اس وقت کی ہندوستان کی تمام طاقتوں کو انگریزوں کے خلاف متحدہونے کی دعوت دی۔ حالانکہ اس وقت کے والیان ریاست متحدہ قومیت کے تصورسے بھی آشنا نہیں تھے۔ ٹیپونے مرہٹوں اورنظام دونوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوششیں کی انہیں متحد ہوکر آزادی کے حفاظت کی ترغیب دلائی لیکن افسوس ذاتی اقتدار اورشخصی مفاد کے خاطر انگریزوں کا ساتھ دیا گیا بالکل اسی طرح جیسے آج اپنے اقتدارکو قائم رکھنے کے لیے امریکیوں کا ساتھ دیا جارہاہے۔ لیکن اقتداررہا نہ حکومت ‘وہاں یہ ہواکہ پوری ہندوستانی قوم غلامی کی دلدل میں دھنس گئی جس پر ہرتاریخ داں نے انہیں غداران قوم کے لقب سے پکارا۔ اقبال نے کہا۔
جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگِ آدم ننگ دیں ننگ وطن
لیکن افسوس کہ نہ جعفروصادق سبق سیکھتے ہیں نہ ان کے حامی وموالی ہی عقل سے کام لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کے حقیقی ہیروں کو بھلادیا۔ غلامی اورمحکومی سوچ وفکرمیں ایسے بسائی کہ آقاﺅں کی ہراداکو دل سے لگایا ان کے طورطریقے ادب وآداب تہذیب وثقافت زبان لباس ہرچیزکو اپنایا ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضی کہا ہی نہیں سمجھابھی لہٰذا ہم نے اپنی تاریخ میں آزادی کے ان تمام ہیرووںکوجگہ نہ دی جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ سراج الدولہ‘ حافظ رحمت خان‘ شاہ اسماعیل شہید اورسید احمدشہید سب کو فراموش کردیا۔ یہ سب اس طقبے نے کیا جو اہل دانش کی حیثیت رکھتاہے جس کی بنیادی ذمہ داری قومی زندگی کو استحکام اورقوت فراہم کرناہوتی ہے۔
اقبال نے تاریخ کی گردصاف کرکے ہمیں ان کی یاددلائی لیکن اب تو لگتاہے کہ اقبال کوبھی ہم نے فراموشی کے پردوں سے ڈھانپنے کا ارادہ کرلیاہے۔ مہینوںکیا سالوں گزرجاتے ہیں ریڈیو ٹی وی پر نہ اقبال کی شاعری سنائی دیتے ہیں نہ اس کی فکرسے آگاہی کا کوئی پروگرام کیاجاتاہے۔ یوں نئی نسل اقبال سے ناآشنا سی ہوتی جارہی ہے۔ اقبال ٹیپوسلطان سے اپنی ملاقات کا حال جاوید نامے میں یوں کہتے ہیں ۔
آں شہیدانِ محبت را امام
آبروئے ہندوچین وروم وشام
نامش از خورشید ومہ تابند تر
خاک قبرش از من وتو زندہ تر
یعنی اے اقبال! سلطان ٹیپوشہیدانِ محبت کا امام تھا اور مشرقی ممالک کی آبرو(آزادی) اس کی ذات سے وابستہ تھی آج اس کا نام سورج اورچاند سے زیادہ روشن ہے اور اس کی قبرکی مٹی ہندوستان کے رسمی مسلمانوں سے زیادہ زندگی کے خواص اور آثاراپنے اندر رکھتی ہے۔
سیاسی تدبر اور حسن تدبیرمیں ٹیپوسلطان کو تمام ہندوستانی بادشاہوں پربلند مقام حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے مقتدر حلقوں میں پہلا شخص تھا جس نے انگریز بادشاہت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس میں پنہاں خطرات کو پوری طرح محسوس کیا اور ان کو روکنے کے لیے بہترین تدابیرجوکچھ ہوسکتیں تھیں کیں۔ اس نے فوجی طاقت کے علاوہ صنعتی اورتجارتی شعبوں کی اہمیت کو محسوس کیاتمام گردونواح کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ سمٹ کر اس کی سلطنت میں جمع ہوجائیں۔ کیونکہ مضبوط متحد آبادی کی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے مسلم اورغیرمسلم ریاستوں کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے متحدکرنے کی بھی حتی الامکان کوشش کی۔
ان تمام حکمتوں اور قابلیت کے باوجود وہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نظرآتی ہے کہ وہ تمام قابلیتیں اورخوبیاں اس کی شخصی تھیں اجتماعی نہیں تھیں....ہندوستان کے لوگ اخلاقی طورپر بری طرح بگڑچکے تھے۔ سب سے بڑھ کرہرفرد اپنے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہرانتہا پرجانے کے لیے تیارتھا۔ لہذا جہاں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ اہم بن جائے فردقوم کے بجائے اپنی ذات کو مقدم رکھے تو وہاں کسی دوسری قوم کو غلبے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اوراس فتنے سے بچتے رہو جواگر اٹھا تو اس کی زد انہی پرنہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
(سورہ انفال)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ جن کو رسول اللہ نے ”ترجمان القرآن“ کا خطاب دیا تھا”فتنہ“ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”لَسّلَطُ الظَلِمَتِہ“ یہ ظالم قوم کا تسلط ہے۔ قرآن میں اسی سورہ میں بھی دوآیت کے بعد اس ظلم کی تفسیر فرمادی گئی کہ کون سی بداعمالی ہے جس کا ارتکاب اگر قوم کے بعض افراد کریں تو تمام قوم کی قوم محکوم بنادی جاتی ہے فرمایاگیا”مسلمانوں ایسا نہ کروکہ اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو“
اللہ کی سنت یہ ہی ہے کہ جب کسی قوم کے مقتدر افراد قومی اورملی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کی بداعمالی کی سزامیں تمام قوم کی قوم غلام اور محکوم بنادی جاتی ہے۔
یہ نوشتہ تقدیرہے جسے پڑھااورسمجھانہیں گیا تو غلامی کی دلدل میں دھنسنا پھرمقدرٹھہرے گا۔

No comments:

Post a Comment