Wednesday, May 16, 2012

یہ بھی فنڈامنٹلزم ہے

یہ خبربرلن سے آئی ہے‘ نیو یارک ٹائمز نے اپنے 2 رپورٹروںکے حوالے سے دی ہے اور انڈین ایکسپریس نے شائع کی ہے کہ جرمنی میں ایک ”فنڈامنٹلسٹ گروپ “کی جانب سے بڑے پیمانے پر قرآن کی تقسیم کی مہم نے پورے جرمنی میں اسلام مخالف احساسات پیداکردیے ہیں نیز سیاستدانوں اورسیکورٹی حکام نے خیال ظاہرکیا ہے کہ دراصل یہ ایک ریڈیکل مسلم گروپ کی جانب سے ریڈیکل عناصرکوبھرتی کرنے کی مہم ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مہم ابراہیم ابونجی نامی ایک فلسطینی چلارہاہے جو اسلام کی ایک انتہائی قدامت پسند شکل ”سلفیت“ کی تبلیغ کرتاہے۔ یہ شخص جرمنی میں تیس سال سے رہ رہاہے۔ اس مہم کے ساتھ پورے ملک مین جرمن باشندوں کے ساتھ سوئس اورآسٹریائی نسل کی آبادیوں میں گھرگھرجاکرقرآن کے نسخے دیے جارہے ہیں۔ رپورٹروں کا کہناہے کہ اس سے قبل 2005ءمیں ابونجی نے ایک ویب سائٹ لانچ کی تھی جس سے وہ انتہا پسندانہ نظریات کا پروپیگنڈاکرتاتھا۔ خبرکے مطابق اس مہم کو شہرت اس وقت ملی جب گزشتہ ہفتے جرنلسٹوں نے اس پرتنقیدکی جس کے بعد انہیں ایک آن لائن ویڈیوکے ذریعے دھمکیاں دی گئیں۔
اب تک تو یہی ہوتاآیاہے کہ پولیس اورخفیہ ایجنسیاں”اسلامی دہشت گردوں“ کے ٹھکانوں پرچھاپے مارکروہاں سے مہلک اسلحہ‘گولہ بارود اوربم بنانے کے سامان کے ساتھ قرآن کے نسخے بھی برآمدکرتی ہیں۔ گویا قرآن کوئی خفیہ اور خطرناک کتاب ہے جو دہشت گردی سکھاتی ہے ۔ پھرمیڈیا اسی اندازمیں ”واقعے“ کی خبریں پھیلاتاہے۔ لیکن اب معلوم ہواہے کہ عین قانونی طریقے سے گھرگھرجاکر ترجمہ ‘قرآن کی کاپیاں علانیہ تقسیم کرنا بھی فنڈامنٹلزم اور ریڈیکل ازم ہے۔ جبکہ یہ کام بائبل سوسائٹیاں ہرملک میں بڑے پیمانے پرکرتی ہیں۔ یہ ابراہیم ابونجی کون ہے‘ نہیں معلوم۔ لیکن مہم کے تناظرکوسمجھاجاسکتاہے کہ جب پوری دنیا میں اسلام اورقرآن کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے تو ہرملک میں حساس‘ غیرت مند اورذمہ دارمسلمان انفرادی طورپر یا اداروں کی شکل میں کوششیں کررہے ہیں کہ غیرمسلم عوام اپنے طورپربراہ راست قرآن کا مطالعہ کریں اورپھر آزادانہ رائے قائم کریں۔ اس سے زیادہ مہذب‘ پرامن اورشریفانہ طریقہ کوئی اورنہیں ہوسکتا۔ مگر دنیا کے سب سے بڑے اخبارکے رپورٹروں کا اخلاق ملاحظہ ہوکہ انہوں نے مجردواقعے کی رپورٹ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مہم کو پہلے ہی فنڈامنٹلزم اور ریڈیکل بناکر پڑھنے والوں کا ذہن ایک خاص رخ پر ڈال دیا۔
اورجرمن باشندوں کے بارے میں نیویارک ٹائمزنے یہ جوکہاہے کہ مہم سے ان کے اندر اسلام مخالف جذبات پیدا ہورہے ہیں تو یہ درست نہیں معلوم ہوتا۔ ہرملک کے عام شہری خواہ جرمنی ہو‘ فرانس ہو‘ امریکا ہو یا انڈیاہو‘کھلادل ودماغ رکھتے ہیں۔ یہ میڈیا ہے جو ان کی تنگ نظری اور کوتاہ قلبی کا پروپگنڈاکرتاہے۔ جرمن شہری اتنے بے خبر اور اپنی تاریخ سے ناواقف نہیں ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اسلام اورقرآن کے خلاف اس عالمی پروپیگنڈے کے پیچھے اسی نسل کا دماغ کارفرماہے جس نے ماضی قریب میں جرمنی کی معیشت‘سیاست اوردیگر وسائل پر قبضہ کرکے پوری جرمن سوسائٹی کو کھوکھلا بنادیاتھا؟ اس کے بعد ہی وہاں ہولوکاسٹ ہواتھا۔ رپورٹروں نے لکھاہے کہ مذہبی لٹریچرکی تقسیم جرمنی میں قانوناً ممنوع نہیں ہے‘ خفیہ ایجنسیوںکو تشویش اس بات پر ہے کہ یہ کام کرکون رہاہے۔ دراصل یہ بھی سازشی دماغوں کی چال ہے۔ پہلے کسی فرد یاگروپ کو غلط قراردے دوپھر وہ جو کام بھی کرے اس کے خلاف آسمان سرپراٹھاﺅ۔ اس مہم کے سلسلے میں جرمنی کے اسلامی سینٹروں کو حقائق دنیا کے سامنے لانے چاہئیں۔

No comments:

Post a Comment