Thursday, May 10, 2012

تعلیمی تخریب کاری

حصول ِ تعلیم کا اولین زینہ درسگاہیں ہوا کرتی ہیں، نقطے سے تحریر تک کا سفر اسی سفینہ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے، زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے لیے درسگاہوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، علم وہنر سے آشنا ہونے کے لیے چراغوں سے روشنی حاصل کرنی پڑتی ہے، کچے ذہنوں کے نقوش کو انہی بھٹیوں میں پکایا جاتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس .... ! کہ جس ایندھن سے بھٹی کو سلگایا اور دہکایا جارہا ہو وہ ایندھن ہی سراسر غلیظ وبدبودار ہو تو اس کی تپش سے پکنے والے اذہان کیونکر پاک وصاف ہوسکتے ہیں، ان کے افکارو خیالات کس طرح پاکیزہ ہوسکتے ہیں؟ ملک کے معماروں کو جب ملک کا دشمن بنایا جارہا ہو، وطن کے سرمایہ کو جب برباد کیا جارہا ہو تو بیدار قومیں کبھی خوابِ غفلت کے مزے نہیںلوٹتیں، بلکہ حصولِ ہدف تک اپنے نرم بستروں اور خواب کدوں کی جانب پلٹ کر دیکھنا بھی گوارانہیں کرتیں۔
شاتم رسول ملعون سلمان رشدی، بابری مسجد کے انہدام پر نعوذباﷲ A Creative Passion (ایک تخلیقی جذبہ) کے عنوان سے مضمون لکھنے والا ”نائی پال“ جس کا تعلق بھارتی انتہاءپسند ہندو جماعت وشوا ہندو پریشد اور جنتا پارٹی سے بھی رہا ہے، بھارتی نژاد امریکن رائٹرکرن ڈیسائی، بھارتی مصنف روہنٹن اور انہی جیسے دیگر فتنہ پرور اشخاص کی 8متنازع کتابوںکو پشاور یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ نے ایم فل، پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے لیے آئندہ سیکشن یعنی 2012ءاور 2013 ءکے لیے 30جنوری 2012ءکو اکیڈمک کونسل کی جانب سے شامل نصاب کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے تعلیمی نصاب میں رد وبدل کا یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی یہ آزمائشی تدابیر اختیار کی جاتی رہی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کی نصابی تبدیلی سے پہلے نویں اور دسویں جماعت کی اسلامیات، مطالعہ پاکستان، اردو اور دیگر کتب سے تحریک پاکستان، تحریک خلافت، جہاد اور قائد اعظم کے حوالے سے مضامین کو نکالنے کی بھر پور کوشش کی گئی تھی، لیکن عوامی رد عمل کے سامنے نہ صرف حکمران اپنے دعوو ¿ں سے مکر گئے بلکہ صوبہ خبیر پختونخوا جیسے ایک غریب صوبے کو 42کروڑوں روپے سے زائد کا نقصان دے بیٹھے، کیونکہ چھاپی گئی نصابی کتب کو نذر آتش کرنا پڑا۔ میٹرک کے نصاب میں یہ ردو بدل 27 ارب روپے کی برطانوی گرانٹ کے عوض صوبہ خیبر پختونخوا کی حکو مت نے کیا۔
اسی خدشہ کے پیش نظر امریکی سفیر کی پشاور یونیورسٹی آمد سے ایک ماہ قبل اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جس پر امریکی سفیر نے اپنا دورہ منسوخ کردیا ۔بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش اس انداز میں کی کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر تنظیموں کے رد عمل کی وجہ سے یونیورسٹی خاطر خواہ گرانٹ اور امریکی تعاون وامداد سے محروم ہوگئی ہے۔ لیکن امریکی حکام کے دورہ کا بھید گزشتہ دنوں اس وقت کھل کر سامنے آیا جب پشاور یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ نے ایم فل، پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے آئندہ سیشن یعنی 2012ءاور 2013ءکے لیے30 جنوری 2012ءکو اکیڈمک کونسل کی جانب سے منظور کی گئی کتابوں کی لسٹ جاری کردی اور 16 مارچ کو اس تبدیلی کے حوالے سے اکیڈمک کونسل کے چیئرمین کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی طلب کیا۔
دو برسوں میں 68 لاکھ روپے سے زائد امداد کے عوض اکیڈمک کونسل کی جانب سے یونیورسٹی کے نصاب میں جن کتابوں کی منظوری دی گئی، ان میں بدبخت گستاخ رسول سلمان رشدی کی دو کتابیں ”مڈنائٹ چلڈرن“ جو رینڈم ہاو ¿س نے 2006ءمیں شائع کی تھی اور ”شیم“ جو 1993ءمیں این او ایف پی نامی کتب خانہ نے شائع کی ہے، شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ”شیم“ میں پاکستانی فوج پر توہین آمیز انداز میں شدید تنقید کی گئی ہے۔ اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی مذہبی جماعتوں اور طلبہ و اساتذہ کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ عوامی ردعمل سے حواس باختہ ہو کر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک معمولی سا بیان جاری کر کے ملعون رشدی کی کتابوں کے بارے میں کہا کہ فیکلٹی بورڈنے کورس میں ان کتب کی شمولیت کی منظوری دیدی ہے تاہم اس کے باوجود یہ کتابیں شامل نہیں کی گئی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فیکلٹی بورڈ نے کورس میں ان کتابوں کی شمولیت کی منظوری کیونکر دی؟ کیا یہ یونیورسٹی طلبہ کے مستقبل کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں؟ کیا بورڈ کو یہ معلومات نہیں تھیں کہ ملعون رشدی گستاخ رسول ہے؟ کیا بورڈ کا یہ اقدام مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف نہیں؟
دراصل کسی بھی منصب پر جب نااہل لوگ براجمان ہوجائیں تو اس کے مامورین و زیردست عملہ وارکان ترقی کی راہوںکو سپنوں میں بھی نہیں دیکھ پاتے طے کرنا تو درکنار! بوگس ڈگری کے حامل پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات نے بھی منصب سنبھالتے ہی امریکیوں کو یونیورسٹی میں کھلی مداخلت کا اختیار دے دیا ہے۔ نتیجتاً اسلام دشمن مصنفین کی تصانیف کو بلا خوف وخطر یونیورسٹی نصاب میں شامل کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب ان اقدامات سے یونیورسٹی کا ماحول انتہائی کشیدہ ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ان بے ہودہ اقدامات کے سبب کچھ عرصہ قبل مسلح افراد نے یونیورسٹی کے اندر مارچ کیا تھا اور یہ انتباہ کیا تھا کہ یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو تباہ کرنے کی کوششیں ترک کردی جائیں۔ پشاور یونیورسٹی جو خیبر ایجنسی سے صرف ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کے من مانے فیصلوں کے باعث وہاں شدت پسندوں کے حملے ردِعمل کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ اس طرح بے جا نصابی تبدیلیوں سے یونیورسٹی میں امن وامان کا سنگین مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ بھی خارج از امکان نہیں !
تعلیم تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن ہمارے ہاں عجیب ماجرا ہے کہ تعلیم میں بھی تخریب کاری! استاد تو روحانی باپ ہوا کرتا ہے، اگر باپ ہی اپنی اولاد سے دغا کرنے لگے تو دشمن کو کیا ضرورت ہے خود کو بدنام کرنے کی، جب گھر کا دربان ہی چور ہو تو کیا ضرورت ہے دروازوں کو مقفل کرنے کی۔ اکھاڑ دو چوکھٹیں رہزنوں کی سہولت کی خاطر....!

No comments:

Post a Comment