مسلمانوںکا تاریخی تجربہ عجیب ہے۔ مسلمانوں کو تاریخ میں جب بھی کہیں غلبہ اور سیاسی اقتدار حاصل ہوا ہے انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک کی داستانیں رقم کی ہیں لیکن مسلمان جب کہیں سیاسی اعتبار سے مغلوب ہوئے ہیں انہیں ہولناک حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مذہبی یا غیرمذہبی اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کے بہترین سلوک کی وجہ خود مسلمان نہیں ان کا دین اسلام ہے۔ جس کی تعلیم یہ ہے کہ اسلام میں کوئی جبر نہیں۔ آپ کسی شخص پر اسلام مسلط نہیں کرسکتے۔ اسلام اختیار کرنا یا نہ کرنا انسانوں کے آزادانہ انتخاب کا معاملہ ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دین کے سلسلہ میں کسی کے ساتھ جبر روا نہ رکھیں اور اقلیتوں کو ان کے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی فراہم کریں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے ساتھ تاریخ میں بدترین سلوک ہوا ہے تو اس کی وجہ بھی خود مسلمان نہیں ہیں۔ اس کا سبب بھی مسلمانوں کا دین ہے جس کی موجودگی اور فروغ شیطان اور اس کی ذریت کے لیے اذیت کا باعث ہے چنانچہ شیطان اور اس کے چیلے ہر جگہ مسلمانوں کی آڑ میں دراصل اسلام پر حملے کی راہ ہموار کراتے ہیں۔
مسلمانوں نے تاریخ میں مسلم اسپین کا تجربہ خلق کیا اور اسپین کے ایک وسیع حصے پر 6 سو سال حکومت کی۔ مسلم اسپین میں یہودیوں اور عیسائیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ ان لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل تھی بلکہ یہ لوگ مسلم اسپین کے مرکزی دھارے میں موجود تھے۔ ان لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ ان کی عظیم اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال تھی۔ یہودی اور عیسائی دانش ور صف اول کے مسلم دانش وروں کے ساتھ علمی کام کررہے تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلم اسپین سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا مسلمانوں کے سامنے انتخاب کی تین صورتیں رکھ دی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ یا تو آپ اسپین چھوڑ کر چلے جائیں۔ یا عیسائی ہوجائیں یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے حوالے سے یہ تینوں ہی صورتیں بروئے کار آئیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اسپین چھوڑ دیا۔ کچھ مسلمان عیسائی ہوگئے اور کچھ تہہ تیغ کردیے گئے۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ مسلمان چاہتے تو ایک ہزارسال کا عرصہ اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان میں کوئی ہندو‘ ہندو نہ رہتا۔ لیکن مسلمانوں نے ایک ہزارسال کی تاریخ میں ہندوﺅں کے مذہب کو ہاتھ لگایا نہ ہندوﺅں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ ہندوازم میں ذات پات کے نظام نے کروڑوں شودروں اور اچھوتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا۔ مسلمان چاہتے تو نچلی ذات کے ہندوﺅں کو بغاوت پر آمادہ کرکے ہندوﺅں کی قوت کو توڑ دیتے اور ہندوﺅں کے داخلی دائرے میں فساد کی صورت پیدا ہوجاتی۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے ہی نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ایک ہزارسال میں ذات پات کے نظام کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ البتہ ہندوﺅں نے اقتدار حاصل ہوتے ہی مسلمانوں کے لیے زندگی کو دشوار بنا دیا۔ آزادی کے بعد سے اب تک بھارت میں چھوٹے بڑے ساڑھے چار ہزار مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی اقتصادی حالت شودروں اور دلتوں سے بھی گئی گزری ہے۔ ان کی تعلیمی حالت اچھی نہیں۔ اردو اگر ہندوستان میں زندہ ہے تو اپنی قوت سے زندہ ہے ورنہ اس کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کی کوئی خواہش ریاستی سطح پر موجود نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کے خلاف اقدام کا نقطہ عروج تھی اور اس سے ثابت ہوا کہ مسئلہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا دین ہے۔ ورنہ بابری مسجد کی شہادت کا نہ کوئی تاریخی جواز تھا نہ اس کی کوئی مذہبی بنیاد تھی۔
مسلمانوں نے یہودیوں کو صرف مسلم اسپین میں سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا بلکہ جس وقت بغداد مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا اسی وقت بھی یہودی مسلم ریاست میں پھل پھول رہے تھے۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے مرکز میں بھی یہودی بہترین زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن آج اسرائیل میں لاکھوں مسلمان دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے ہیں۔ انہیں مخصوص علاقوں میں محصور کردیا گیا ہے۔ نہ ان کی کوئی سیاسی آواز ہے۔ نہ کوئی علمی تشخص ہے۔ یہاں تک کہ وہ احتجاج کرنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ان کا قبلہ اول یہودیوں کی گرفت میں ہے۔ یہودی فوجی جب چاہتے ہیں مسجد اقصیٰ کی توہین کردیتے ہیں۔ مقبوضہ عرب علاقوں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ یہاں تک کہ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔
بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں کا معاملہ اور بھی المناک ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا یوگو سلاویہ کا حصہ تھا اور وہاں کم وبیش 65 سال تک کمیونزم کی حکمرانی رہی اور کمیونزم اسلام کا دشمن تھا چنانچہ بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں نے اپنے نام تک مقامی ناموں پر رکھ لیے تھے اور ان کی عظیم اکثریت سیکولر تھی۔ لیکن یوگوسلاویہ کے خاتمے کے ساتھ ہی بوسنیا کے مسلمان سربوں اور کروٹس کا نشانہ بن گئے اور ساڑھے تین سال کی خانہ جنگی میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ اور قتل کرنے والوں نے ان کا واحد جرم یہ بتایا کہ تم ”مسلمان“ ہو۔ یا اگر تم مسلمان نہیں ہو تو تمہارے آباﺅ اجداد ضرور مسلمان تھے۔
بعض لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ مسلم اسپین اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں نے ان علاقوں پر طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی اور مسلمان باہر سے آئے تھے۔ لیکن برما پر مسلمانوں نے کبھی حکومت نہیں کی۔ اس کے باوجود برما میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت بھارت اور بوسنیا کے مسلمانوں سے بھی بدتر ہے۔ انہیں ہر اعتبار سے برما کے ”مضافات“ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ روہنگیا مسلمان اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں شادی کے لیے حکومت کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں باضابطہ درخواست دینی پڑتی ہے۔ ہزاروں درخواستیں برسوں دفتر میں پڑی سڑتی رہتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بدھ ازم سے زیادہ پرامن مذہب کوئی نہیں۔ بدھسٹ کسی ذی حیات کے قتل کے خلاف ہیں۔ بدھسٹ ”سیاسی ذہن“ کے حامل بھی نہیں ہوتے۔ انہیں ریاست وسیاست سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا مذہب”ترک دنیا“ کا مذہب ہے۔ لیکن سری لنکا سے آنے والی اطلاعات بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے لیے بے ضرر بھی ضرر رساں ہے۔ گلف نیوز کی 29 اپریل 2012ءکی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق سری لنکا کے علاقے ”دم بُلّا“ میں 65 سال سے موجود مسجد پر بدھسٹوں نے حملہ کیا اور مسجد کو شہید کرنے کی دھمکی دی۔ اس واقع کے بعد سری لنکا کے وزیراعظم ڈی ایم دیا رتنے نے ایک بیان میں فرمایا کہ مسجد کو گرا دیا جائے کیونکہ بقول ان کے مسجد ایک ایسے علاقے میں تعمیر کی گئی ہے جو بدھسٹوں کے لیے ”مقدس“ ہے۔ سری لنکا کے وزیراعظم نے مسلمانوں کے ”دکھ“ کو کم کرنے کے لیے فرمایا کہ مسلمانوں کو کسی اور علاقے میں مسجد تعمیر کرکے دی جائے گی۔ تاہم سری لنکا کے مسلمانوں کے رہنماﺅں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی اور علاقے میں مسجد کی تعمیر کو قبول نہیں کریں گے خواہ انہیں سونے کی مسجد ہی کیوں نہ بنا کردی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسجد دوسال پہلے تعمیر کی گئی حالانکہ ہمارے پاس دستاویزات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد 65 سال سے اپنی جگہ موجود ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا تاریخی تجربہ عجیب ہے۔ ان کے لیے زمین کے کسی بھی ایسے علاقے میں جائے امان نہیں جہاں انہیں سیاسی اقتدار حاصل نہ ہو۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اتنے تلخ تاریخی تجربات کے باوجود مسلمانوں میں کہیں خواہش انتقام موجود نہیں۔ اس کی وجہ اسلام کا عطا کردہ یہ شعور ہے کہ مسلمان اس روئے زمین کی وہ امت ہیں جسے پوری دنیا کے لیے مثال بننا ہے اور پوری دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ مسلمان دنیا کو سمجھنے کے لیے اس کے حالات و واقعات کا تجزیہ ضرور کرتے ہیں مگر وہ دنیا سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ مسلمان دنیا سے لاتعلق ہوگئے تو پھر شہادت حق کا عالمگیر فرض کون ادا کرے گا۔؟ دنیا میں جگہ جگہ موجود کانٹوں کو چن کر ان کی جگہ پھول کون بچھائے گا؟ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ پر کون لائے گا؟۔
مسلمانوں نے تاریخ میں مسلم اسپین کا تجربہ خلق کیا اور اسپین کے ایک وسیع حصے پر 6 سو سال حکومت کی۔ مسلم اسپین میں یہودیوں اور عیسائیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ ان لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل تھی بلکہ یہ لوگ مسلم اسپین کے مرکزی دھارے میں موجود تھے۔ ان لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ ان کی عظیم اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال تھی۔ یہودی اور عیسائی دانش ور صف اول کے مسلم دانش وروں کے ساتھ علمی کام کررہے تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلم اسپین سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا مسلمانوں کے سامنے انتخاب کی تین صورتیں رکھ دی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ یا تو آپ اسپین چھوڑ کر چلے جائیں۔ یا عیسائی ہوجائیں یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے حوالے سے یہ تینوں ہی صورتیں بروئے کار آئیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اسپین چھوڑ دیا۔ کچھ مسلمان عیسائی ہوگئے اور کچھ تہہ تیغ کردیے گئے۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ مسلمان چاہتے تو ایک ہزارسال کا عرصہ اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان میں کوئی ہندو‘ ہندو نہ رہتا۔ لیکن مسلمانوں نے ایک ہزارسال کی تاریخ میں ہندوﺅں کے مذہب کو ہاتھ لگایا نہ ہندوﺅں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ ہندوازم میں ذات پات کے نظام نے کروڑوں شودروں اور اچھوتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا۔ مسلمان چاہتے تو نچلی ذات کے ہندوﺅں کو بغاوت پر آمادہ کرکے ہندوﺅں کی قوت کو توڑ دیتے اور ہندوﺅں کے داخلی دائرے میں فساد کی صورت پیدا ہوجاتی۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے ہی نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ایک ہزارسال میں ذات پات کے نظام کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ البتہ ہندوﺅں نے اقتدار حاصل ہوتے ہی مسلمانوں کے لیے زندگی کو دشوار بنا دیا۔ آزادی کے بعد سے اب تک بھارت میں چھوٹے بڑے ساڑھے چار ہزار مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی اقتصادی حالت شودروں اور دلتوں سے بھی گئی گزری ہے۔ ان کی تعلیمی حالت اچھی نہیں۔ اردو اگر ہندوستان میں زندہ ہے تو اپنی قوت سے زندہ ہے ورنہ اس کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کی کوئی خواہش ریاستی سطح پر موجود نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کے خلاف اقدام کا نقطہ عروج تھی اور اس سے ثابت ہوا کہ مسئلہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا دین ہے۔ ورنہ بابری مسجد کی شہادت کا نہ کوئی تاریخی جواز تھا نہ اس کی کوئی مذہبی بنیاد تھی۔
مسلمانوں نے یہودیوں کو صرف مسلم اسپین میں سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا بلکہ جس وقت بغداد مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا اسی وقت بھی یہودی مسلم ریاست میں پھل پھول رہے تھے۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے مرکز میں بھی یہودی بہترین زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن آج اسرائیل میں لاکھوں مسلمان دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے ہیں۔ انہیں مخصوص علاقوں میں محصور کردیا گیا ہے۔ نہ ان کی کوئی سیاسی آواز ہے۔ نہ کوئی علمی تشخص ہے۔ یہاں تک کہ وہ احتجاج کرنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ان کا قبلہ اول یہودیوں کی گرفت میں ہے۔ یہودی فوجی جب چاہتے ہیں مسجد اقصیٰ کی توہین کردیتے ہیں۔ مقبوضہ عرب علاقوں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ یہاں تک کہ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔
بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں کا معاملہ اور بھی المناک ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا یوگو سلاویہ کا حصہ تھا اور وہاں کم وبیش 65 سال تک کمیونزم کی حکمرانی رہی اور کمیونزم اسلام کا دشمن تھا چنانچہ بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں نے اپنے نام تک مقامی ناموں پر رکھ لیے تھے اور ان کی عظیم اکثریت سیکولر تھی۔ لیکن یوگوسلاویہ کے خاتمے کے ساتھ ہی بوسنیا کے مسلمان سربوں اور کروٹس کا نشانہ بن گئے اور ساڑھے تین سال کی خانہ جنگی میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ اور قتل کرنے والوں نے ان کا واحد جرم یہ بتایا کہ تم ”مسلمان“ ہو۔ یا اگر تم مسلمان نہیں ہو تو تمہارے آباﺅ اجداد ضرور مسلمان تھے۔
بعض لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ مسلم اسپین اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں نے ان علاقوں پر طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی اور مسلمان باہر سے آئے تھے۔ لیکن برما پر مسلمانوں نے کبھی حکومت نہیں کی۔ اس کے باوجود برما میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت بھارت اور بوسنیا کے مسلمانوں سے بھی بدتر ہے۔ انہیں ہر اعتبار سے برما کے ”مضافات“ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ روہنگیا مسلمان اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں شادی کے لیے حکومت کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں باضابطہ درخواست دینی پڑتی ہے۔ ہزاروں درخواستیں برسوں دفتر میں پڑی سڑتی رہتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بدھ ازم سے زیادہ پرامن مذہب کوئی نہیں۔ بدھسٹ کسی ذی حیات کے قتل کے خلاف ہیں۔ بدھسٹ ”سیاسی ذہن“ کے حامل بھی نہیں ہوتے۔ انہیں ریاست وسیاست سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا مذہب”ترک دنیا“ کا مذہب ہے۔ لیکن سری لنکا سے آنے والی اطلاعات بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے لیے بے ضرر بھی ضرر رساں ہے۔ گلف نیوز کی 29 اپریل 2012ءکی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق سری لنکا کے علاقے ”دم بُلّا“ میں 65 سال سے موجود مسجد پر بدھسٹوں نے حملہ کیا اور مسجد کو شہید کرنے کی دھمکی دی۔ اس واقع کے بعد سری لنکا کے وزیراعظم ڈی ایم دیا رتنے نے ایک بیان میں فرمایا کہ مسجد کو گرا دیا جائے کیونکہ بقول ان کے مسجد ایک ایسے علاقے میں تعمیر کی گئی ہے جو بدھسٹوں کے لیے ”مقدس“ ہے۔ سری لنکا کے وزیراعظم نے مسلمانوں کے ”دکھ“ کو کم کرنے کے لیے فرمایا کہ مسلمانوں کو کسی اور علاقے میں مسجد تعمیر کرکے دی جائے گی۔ تاہم سری لنکا کے مسلمانوں کے رہنماﺅں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی اور علاقے میں مسجد کی تعمیر کو قبول نہیں کریں گے خواہ انہیں سونے کی مسجد ہی کیوں نہ بنا کردی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسجد دوسال پہلے تعمیر کی گئی حالانکہ ہمارے پاس دستاویزات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد 65 سال سے اپنی جگہ موجود ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا تاریخی تجربہ عجیب ہے۔ ان کے لیے زمین کے کسی بھی ایسے علاقے میں جائے امان نہیں جہاں انہیں سیاسی اقتدار حاصل نہ ہو۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اتنے تلخ تاریخی تجربات کے باوجود مسلمانوں میں کہیں خواہش انتقام موجود نہیں۔ اس کی وجہ اسلام کا عطا کردہ یہ شعور ہے کہ مسلمان اس روئے زمین کی وہ امت ہیں جسے پوری دنیا کے لیے مثال بننا ہے اور پوری دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ مسلمان دنیا کو سمجھنے کے لیے اس کے حالات و واقعات کا تجزیہ ضرور کرتے ہیں مگر وہ دنیا سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ مسلمان دنیا سے لاتعلق ہوگئے تو پھر شہادت حق کا عالمگیر فرض کون ادا کرے گا۔؟ دنیا میں جگہ جگہ موجود کانٹوں کو چن کر ان کی جگہ پھول کون بچھائے گا؟ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ پر کون لائے گا؟۔
No comments:
Post a Comment