-پاکستان میں معیشت پرلکھنے والوںکی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔ اس کی
وجہ ظاہرہے معیشت تخصیصی اور تکنیکی ثبوت ہے۔ اس دائرے میں لکھنے کے لیے
علم اورمہارت درکار ہیں۔ اس شعبے میں اظہارخیال کے لیے لفاظی اور زوربیان
سے کام نہیں چل سکتا۔ یہاں فن خطابت کام نہیں آسکتا چنانچہ عام افرادکا تو
ذکر ہی کیا معاشیات کے ماہرین کی بڑی تعداد بھی لکھنے لکھانے سے گریزکرتی
ہے۔ تاہم انگریزی میں معیشت پرلکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہمارے یہاں
موجود ہے۔اس کی دوبنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ معاشیات کی اعلیٰ تعلیم
بالائی طبقات کاذوق وشوق ہے اور ہمارے بالائی طبقات کا ذریعہ اظہارانگریزی
ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جدید معاشیات کا ساراعلم مغرب سے آیاہے اور
مغرب میں معاشیات میں زیادہ کام انگریزی میں ہواہے۔ چنانچہ انگریزی میں
معیشت پرلکھنے کے لیے اظہارکے تمام درکارسانچے موجود ہیں۔ لیکن اردوکو یہ
دونوں فضیلتیں حاصل نہیں ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اردومیں معیشت پرلکھنے
والے نایاب نہیں توکمیاب ضرورہیں۔
ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے معاشیات کی تعلیم تو
انگریزی میں حاصل کی ہے مگر وہ معاشی موضوعات پر لکھتے اردومیں ہیں۔ ڈاکٹر
صاحب معای موضوعات انگریزی میں بھی لکھاہے مگران کی شناخت ان کی انگریزی
تحریریں نہیں ہیں۔ قومی سطح پر انہیں ان کی اردوتحریروں کی وجہ سے ہی سے
پہچانا جاتاہے۔ لیکن معاشی موضوعات پر اردومیں لکھنا ڈاکٹرصاحب کی واحد
خوبی نہیں ہے۔
اس شعبے میں ’’سومیٹرکی دوڑ‘‘ دوڑنے والے کم ہونے کے باوجود بہت ہیں۔ یہ وہ
لوگ ہیں جو سال میں پانچ‘ سات تحریریں معاشی موضوعات پر لکھ لیتے ہیں۔
البتہ ایسے لوگوںکی تعداد کم ہے جو اس میدان میں پانچ ہزارمیٹرکی دوڑدوڑتے
ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو وقفے وقفے سے معاشی مسائل پراظہارخیال کرتے ہیں۔ تاہم
ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ اس میدان میں 100 میٹرکی دوڑ دوڑرہے
ہیں نہ انہیں 5000 میٹرکی دوڑ سے دلچسپی ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے اس میدان
میں اپنے لیے ’’میراتھن‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی ڈاکٹرصاحب معاشی موضوعات
پربرسوں سے پابندی کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب تک
ڈاکٹرصاحب کا سانس نہیں پھولاہے۔ معیشت پرڈاکٹرصاحب کی میراتھن کا ایک ثبوت
ڈاکٹرصاحب کی تصنیف پاکستان اور امریکا ‘دہشت گردی‘ سیاست ومعیشت ہے۔396
صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ لیکن معاشی
موضوعات پر تحریروں کی میراتھن دوڑنا ڈاکٹر صاحب کا واحدکمال نہیں ہے۔
مغربی فکرنے انسانوں کو مختلف علوم وفنون کے دڑبوں میں قید کردیا ہے۔
چنانچہ عام طورپر لوگ جس شعبے کے ماہرہوتے ہیں انہیں اس شعبے کے سوا کسی
اوردائرہ علم نہ دلچسپی ہوتی ہے نہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا
پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے یہاں معاشی موضوعات پہ لکھنے والے اکثر لوگ
معاشیات کے دائرے ہی میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرصاحب نے اپنی تصنیف
میں معاشیات کو سیاسی تناظرمیں دیکھا اور دکھایاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ
ڈاکٹرصاحب کی کتاب میں معاشیات زندگی کے وسیع تر منظرنامے کے ایک جزوکے
طورپرسامنے آتی ہے جو معاشیات کا اصل مقام ہے۔
نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے پاکستان کے لیے ایک بحرانی
اورہیجانی کیفیت پیداکردی۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا
ملک امریکا کے حوالے کردیا۔ پاکستان کی آزادی خواب بن گئی۔ پاکستان کی خود
مختاری کا دور دورتک نام ونشان باقی نہ رہا۔ قومی وقار محض ایک تصوربن کر
رہ گیا۔ اس صورت حال کے ممکنات ومضمرات کو سمجھنا آسان نہ تھا ۔ ڈاکٹرشاہد
حسن صدیقی صاحب نے اس منظرنامے کو نہ صرف یہ کہ سمجھا اورسمجھایاہے بلکہ
انہوں نے سیاست کو معاشیات کا اورمعاشیات کو سیاست کا آئینہ بنانے کی ہر
ممکن کوشش کی ہے۔ یہ صف نایاب نہیں توکمیاب ضرورہے۔
معاشیات ایک خشک مضمون ہے چنانچہ معاشی موضوعات پر لکھی گئی اکثر تحریریں
اپنے بوجھل پن کی وجہ سے ناقابل مطالعہ محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ڈاکٹرشاہدحسن
صدیقی صاحب معاشی موضوعات پربھی ایک ’’جذبے‘‘ کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ان کا یہ
جذبہ سطح پر موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ ڈائریکٹرصاحب کے اسلوب اور ان کے
تناظرمیں موجود ہوتاہے۔ چنانچہ ڈاکٹرصاحب کا جذبہ ڈاکٹرصاحب کی تحریروں کا
عیب نہیں ان کا ہنربن گیاہے۔ اس ہنر نے ڈاکٹرصاحب کی خشک موضوعات پرلکھی
گئی تحریروںکو بھی دلچسپ اور قابل مطالعہ بنادیاہے۔ ہماری تہذیب میں جذبے
کوآگہی کا ایک ذریعہ سمجھاگیاہے۔ ڈاکٹرصاحب کی کتاب پڑھ کر خیال آتاہے کہ
ڈاکٹرصاحب کا جذبہ ان کے لیے آگہی کا ایک وسیلہ بن گیا جس کی وجہ سے
ڈاکٹرصاحب نے نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے بعض
ایسی باتیں لکھی ہیں جو بعدازاں پیش گوئی ثابت ہوئیں۔ ایسا جذبہ اور اس سے
فراہم ہونے والی ایسی آگہی اللہ تعالیٰ کی عطاہے۔ ورنہ ہمارے یہاں لکھنے
والوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ ان کی تحریریں خود اپنی تکذیب اور تردید
کا سلسلہ بن جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ جذبے سے محروم
ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتاہے کہ تحریرکو معروضیت یا Objective ہونا چاہیے
لیکن ان افراد کے یہاں مصروفیت اور لاتعلقی اور بے حسی میں کوئی فرق نہیں
ہوتا۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریریں معروضی ہونے کے باوجود جذبے سے عاری نہیں
ہوتیں۔
خداکا شکرہے کہ حق وباطل کے معرکے میں ڈاکٹرصاحب ’’غیرجانب دار‘‘ نہیں
ہیں۔انہیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرارہے اور وہ صرف قوم کی سطح پر نہیں بلکہ
ملت اور امت کی سطح پر بھی سوچتے ہیں اور ان کا تناظرامت گیر ہے۔ چنانچہ
ڈاکٹرصاحب کی کتاب ’’جانب داری‘‘کے ساتھ لکھی گئی کتاب ہے لیکن یہ جانب
داراں اندھادھند نہیں ہے۔ ڈاکٹرصاب نے اپنی تحریروں میں حق کی صداقت
اورباطل کے جھوٹ کی نشاندہی کی ہے اور حق کے مقدمے کو دلائل و برا نہیں کی
سطح پر بھی لڑکر دکھایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرصاحب کی تصنیف نائب الیون کے
بعد پاکستان میں رونما ہونے والی صورتحال کا ایک ہمہ جہت تجزیہ اوراس
تجزیہ کی ایک دستاویزبن گئی ہے اور سیاست ومعیشت کے تعلق سے دلچسپی رکھنے
والا کوئی قاری اسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔ چونکہ کتاب کالموں کا مجموعہ ہے
اس لیے کتاب میں کہیں کہیں زبان وبیان اور دلائل کی تکرار پائی جاتی ہے
لیکن یہ تکرارکتاب کی روانی اور معنویت پرمنفی اثرنہیں ڈالتی۔ یہاں
ڈاکٹرصاحب سے یہ درخواست کرنا غلط نہ ہوگاکہ انہیں عالمی تناظرمیں معاشیات
کے نظریاتی پہلوئوںکے حوالے سے بھی قلم اٹھاناچاہیے۔
No comments:
Post a Comment