Thursday, June 7, 2012

صحافت کا زوال

صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیادہ ”آسمان“ کے ساتھ ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہماری تہذیب میں صحافت کا تعلق ”الہام“ کی روایت سے ہے۔ اس روایت میں ”خبر“ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کی اعلیٰ ترین سطح کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخبر صادق کہا گیا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوںکو ہدایت کرتا ہے کہ لگی لپٹی بات نہ کہو اور سچائی سے دامن نہ بچاﺅ، اس لیے کہ تم جو کچھ کہتے ہو اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ِمبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ ¿ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرے میں صحافت ایک دینی اور اخلاقی جدوجہد ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں صداقت اور اس کا ابلاغ کوئی سیاسی تصور نہیں، بلکہ اسلامی معاشرے میں صداقت زندگی کے ہم معنی ہے اور صداقت کا ابلاغ زندگی کا ابلاغ ہے، صداقت کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے۔ ایسے معاشرے میں صداقت مسخ ہوتی ہے تو زندگی مسخ ہوجاتی ہے، صداقت حسن سے محروم ہوتی ہے تو زندگی جمال سے عاری ہوجاتی ہے اور انسان کا اپنے خالق و مالک سے تعلق بری طرح مجروح ہوجاتا ہے۔
دنیا کی غیر مسلم اقوام صحافت کا یہ تصور پیش کرنے سے قاصر ہیں، تاہم اُن کے یہاں صحافت کی ضرورت اور اہمیت کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ ممتاز مو ¿رخ ایچ جی ویلز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سلطنتِ روما اس لیے زوال پذیر ہوئی کہ اس زمانے میں صحافت کا ادارہ موجود نہیں تھا، چنانچہ حکمرانوں کی جانب سے جو احکامات جاری ہوتے تھے انہیں سلطنت کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں کئی کئی سال لگ جاتے تھے۔ اس صورت حال کی وجہ سے سلطنت کے بڑے حصے میں بدنظمی عام ہوتی چلی گئی اور بالآخر سلطنت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کی قومی تاریخ کو دیکھا جائے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے صحافت کے حوالے سے کئی اہم باتیں کہی ہیں۔ مثلاً انہوں نے ایک بات یہ کہی ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ 13 مارچ 1947ءکو ممبئی میں مسلم صحافیوں کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
”آپ کے پاس بڑی طاقت ہے۔ آپ لوگوںکو راہ دکھا سکتے ہیں یا انہیں گمراہ کرسکتے ہیں۔ آپ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بناسکتے یا تباہ کرسکتے ہیں۔ صحافت کی طاقت واقعتاً بہت بڑی ہے لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت ایک امانت ہے۔ آپ اس طاقت کو ایک امانت ہی سمجھیے، اور یاد رکھیے آپ ترقی و بہبود کے راستے پر اپنی قوم کی رہنمائی کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ میں آپ سے مکمل بے باکی کی توقع رکھتا ہوں۔ خواہ کسی موقع پر میں خود غلطی پر ہوں یا لیگ اپنی پالیسی یا پروگرام کی سمت کے معاملے میں غلطی کرے، میں چاہوں گا کہ آپ ایک دوست کی سی دیانت داری کے ساتھ اس پر تنقید کریں۔ ایک ایسے دوست کی طرح جس کا دل مسلمان قوم کے ساتھ دھڑک رہا ہو۔“
جس وقت پاکستان وجود میں آیا اس خطے میں چند اخبارات اور رسائل و جرائد موجود تھے، تاہم 1947ءسے 1965ءتک صحافت نے بڑی ”ترقی“ کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 1965ءمیں پاکستان میں شائع ہونے والے روزناموں، ہفت روزوں، ماہناموں اور دیگر رسالوں کی تعداد 1597 تھی۔ لیکن قائداعظم کے خیال کے برعکس صحافت کا ”عروج“ قوم کا زوال بن کر سامنے آیا۔ 1965ءکے اس زمانے پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافت کے ممتاز مو ¿رخ ضمیر نیازی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف Press in chain (کے ترجمے ”صحافت پابند سلاسل“) میں لکھا ہے:
”.... یہ وہ دن تھے جب الطاف گوہر مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے 1597 روزناموں، ہفت روزوں، ماہناموں اور دیگر رسالوں کے عملاً ”ایڈیٹر انچیف“ سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات یہی لوگ طے کرتے تھے کہ کس خبر کو پوری کوریج ملے گی۔ کسے اہمیت کم کرکے شائع کیا جائے گا اور کس خبرکو مکمل طور پر نظرانداز کردیا جائے گا۔“
یہ جنرل ایوب کا زمانہ تھا اور اس حوالے سے جنرل ایوب کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن پاکستانی صحافت نے ایک لشکر کے طور پر جس طرح باجماعت ہتھیار ڈالے وہ بھی کم افسوس ناک نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تو ہمارے اکا دکا صحافی انگریزوں کی مزاحمت کررہے تھے۔ لیکن جب ہم آزاد ہوگئے اور ہماری صحافت ایک باقاعدہ فوج بن گئی تو اس نے ”مقامی“ حکمرانوں کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈالنے کا عمل شروع کردیا۔ بلاشبہ جنرل ایوب کے زمانے میں کئی صحافیوں نے جیل کاٹی، لیکن ایک تو ایسے صحافیوں کی تعداد کو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، دوسرے یہ کہ جیل جانے والے اکثر صحافی اپنے ”عمل“ سے زیادہ اپنے ”پس منظر“ کی وجہ سے جیل گئے۔
جنرل ایوب کے زمانے میں صحافت نے ترقی کی ایک نئی منزل کو چھوا۔ جنرل ایوب نے 1964ءمیں ٹیلی وژن متعارف کرایا جس کے بعد صحافت حقیقی معنوں میں ”الیکٹرونک عہد“ میں داخل ہوگئی۔ ٹیلی وژن شروع ہوا تو اس کے چار مقاصد بیان کیے گئے تھے:
(1) اطلاعات کی فراہمی
(2) تعلیم کا فروغ
(3) تفریح مہیا کرنا
(4) قومی یکجہتی کا حصول
یہ مقاصد اپنی جگہ قابلِ قدر تھے، مگر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ٹیلی وژن کی اطلاع سیاست کی نذر ہو گئی۔ تعلیم کے لیے ٹی وی کبھی استعمال ہی نہیں ہوسکا۔ ٹیلی وژن کی تفریح رفتہ رفتہ مغربیت اور سطحیت کی نذر ہوگئی۔ 1971ءمیں ملک ٹوٹ گیا جس سے ثابت ہوگیا کہ ٹیلی وژن قومی یکجہتی کے فروغ کے سلسلے میں کچھ نہ کرسکا۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف ٹیلی وژن کی ناکامی نہیں تھی۔ اخبارات و رسائل کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ جنرل ایوب نے داخلی کمزوری کا شکار ہوکر بالآخر مارشل لا اٹھایا تو پاکستانی صحافت کے ایک بادشاہ نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر اچھا نہیں کیا، قوم کو اس کی مزید ضرورت تھی۔ جنرل ایوب نے کہا: آپ اپنے اخبار کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں دوبارہ مارشل لا لگادوں گا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق کے دور میں قومی صحافت کو مزید سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان ادوار میں بھی صرف چند صحافی ہی مزاحمت کرتے نظر آئے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے اور ہماری صحافت لسانی تفریق کا شکار ہوگئی۔ اخباروں میں لسانی حریفوں کے خلاف جھوٹی خبریں شائع ہونے لگیں۔ ایک اردو اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون اپنی کار سمیت جلوس میں پھنس گئی۔ کار میں اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ جلوس کے شرکاءنے عورت اور بچے پر حملہ کرکے انہیں مار ڈالا۔ اس خبر کی تحقیق کی گئی تو اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح ایک سندھی روزنامے نے خبر شائع کی کہ نو سندھی خواتین کی لاشیں جناح اسپتال میں رکھی ہوئی ہیں۔ خبر میں اطلاع دی گئی تھی کہ ان خواتین کو زیادتی کے بعد تشدد کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی تحقیق سے بے بنیاد ثابت ہوا۔ تکنیکی ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل ضیاءالحق کا دور صحافت کے لیے عروج کا دور تھا۔ اس دور میں رنگین صحافت ایک نئے عہد میں داخل ہوئی۔ کئی بڑے اخبارات نے بیک وقت مختلف شہروں سے اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ بڑے اخبارات کی اشاعت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ان کی آمدنی کئی گنا بڑھی۔ لیکن اس ترقی کے باوجود قومی صحافت ایک بار پھر قومی نصب العین کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوئی، بلکہ اس دور تک آتے آتے قومی صحافت قومی نصب العین کے تصور سے ہی محرو م ہوگئی۔ اس کے غالب حصے کے لیے مادی اور مالی مفادات اور تکنیکی ترقی کا حصول ہی سب کچھ بن گیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا۔ اسے ”ٹیلی انقلاب“ کا نام دیا گیا۔ لیکن یہ ٹیلی انقلاب سے زیادہ ”ٹیلی دھماکا“ تھا یا کم از کم اب تک وہ انقلاب کے بجائے دھماکا ہی ثابت ہوا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس دھماکے کی ”ابلاغی تابکاری“ سے کروڑوں لوگ جھلس رہے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے اس دھماکے کے بارے میں اس تاثر کو عام کیا کہ وہ آزادی ¿ اظہار کے بڑے قائل ہیں۔ لیکن جنرل ایوب نے پاکستان میں ٹیلی وژن اس لیے شروع نہیں کیا تھا کہ وہ آزادی ¿ اظہار کے بڑے قائل ہوگئے تھے، بلکہ بحیثیت جنرل وہ تاحیات اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ٹیلی وژن ان کے لیے پروپیگنڈے کا مو ¿ثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ جنرل پرویزمشرف کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ طویل عرصے تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ٹیلی دھماکا اس سلسلے میں ان کے بڑے کام آسکتا ہے۔
ایلون ٹوفلر نے اپنی تصنیف ''Future Shock'' میں دوسری عالمی جنگ کا واقعہ تحریر کیا ہے۔ واقعے کے مطابق برما کے محاذ پر بعض فوجیوں کے حوالے سے رپورٹ ہوا کہ وہ شدید فائرنگ کے دوران سوجاتے ہیں۔ گولیاں ان کے آس پاس سے گزرتی رہتی ہیں مگر ان کی نیند نہیں ٹوٹتی۔ ان فوجیوں کا نفسیاتی تجزیہ ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ میدانِ جنگ میں بدترین فائرنگ کے دوران ان کے سوجانے کی وجہ بلاشبہ تھکن، اور نیند کی قلت بھی ہے، مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا ذہن اور ان کے اعصاب مسلسل ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والی ٹیلی وژن نشریات کا معاملہ بھی یہی ہے۔ نشریات کی اس قسم سے ناظرین پر ہزاروں ”پیغامات کی فائرنگ“ ہوتی رہتی ہے۔ نتیجتاً اکثر لوگوں کا ذہن ردعمل ظاہر کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور اس پر ایک طرح کی غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ آسانی کے ساتھ حکمرانوں کے ”محکوم“ اور عامل کے ”معمول“ بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی دھماکے کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ملک میں ”آراءکا سیلاب“ آگیا ہے۔ سیلاب کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر پینے کے لیے صاف پانی کی ایک بوند بھی آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں ٹیلی وژن نے اچانک آراءکی ایسی کثرت کردی ہے کہ عام لوگوں کی کوئی مستحکم رائے ہی نہیں رہی۔ بلاشبہ ان کے پاس ”اطلاعات“ بہت ہیں، مگر یہ اطلاعات بکھری ہوئی ہیں۔ انہیں باہم مربوط کرکے ”علم“ بنانے والا کوئی نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ”شعور“ بکھری ہوئی اطلاعات سے نہیں علم سے نمو پاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی وژن کے عروج نے قومی صحافت کو سطحیت کی ایک نئی سطح فراہم کردی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے ”اینکر پرسنز“ کی اکثریت تواتر کے ساتھ ”الفاظ اگلنے والی مشین“ بنی نظر آتی ہے۔ ٹاک شوز ”مرغوں کی لڑائی“ کا منظر پیش کررہے ہیں اور سیاست دانوں کی ”سماجی چھینک“ اور ”سیاسی جماہی“ بھی ”بریکنگ نیوز“ بن گئی ہے۔ یہ منظرنامہ علم، شعور اور تفہیم کی ہی نہیں اطلاعات کی بھی ضد ہے۔ ابھی یہ صورت صرف تشویش ناک ہے لیکن جب ”ٹیلی وژن کا عروج“ سطحیت کو قوم کا ”ذوق“ بنادے گا تو ٹیلی وژن کا عروج قومی شعور کے خلاف ایک کھلی سازش بن جائے گا۔ اس لیے کہ قوم کیا فرد کے ذوق کو بھی بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ ذوق برسوں میں بگڑتا ہے اور کئی نسلوں کی قربانی کے بعد صحت کی طرف لوٹتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو ذوق کی بحالی میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی دھماکے نے عریانی و فحاشی کو ایک نئی وسعت اور ایک نئی گہرائی فراہم کی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان جیسے غریب معاشرے میں پُرتعیش زندگی کی بڑے پیمانے پر پیشکش بھی ”فحش“ ہے۔ اس لیے کہ اس پیشکش میں غریبوںکے لیے ایک گہرا ملال، ایک گہری حرص اور ایک گہری ترغیب موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود نجی ٹیلی وژن چینلوں کے اکثر ڈراموں، یہاں تک کہ عام پروگراموں کے ”سیٹس“ بھی پُرتعیش زندگی کا اشتہار بنے نظر آتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ فحش کا تعلق عورت کے مخصوص لباس اور تراش خراش کے ساتھ تھا، لیکن نیا ٹیلی ڈرامہ ”موضوعات“ میں بھی فحش کو گھسیٹ لایا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ طوائفوں اور کوٹھوں کے موضوعات پر ڈرامے پیش ہورہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ آخر یہ بھی تو معاشرے کا ”مسئلہ“ ہے۔ لیکن یہ استثنائی مثالوں کو ”عمومی“ بنانے کی کوشش ہے جس کا کوئی تکنیکی جواز نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں مسائل کی کمی نہیں، ملک کی 80 فیصد آبادی خط ِغربت سے نیچے کھڑی ہے، ملک کی آدھی تاریخ فوجی آمریتوں اور باقی آدھی تاریخ سول آمریتوں اور سول نااہلیتوں کی نذر ہوگئی ہے۔ سیاست میں بدعنوانی عام ہے۔ سیاسی جماعتیں مافیاﺅں کا کردار ادا کررہی ہیں۔ ملک کی آزادی کا سودا ہوچکا ہے۔ ملک میں بیرونی مداخلت عروج پر ہے۔ ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ چوری ڈاکے عام ہیں۔ ان موضوعات میں ہزاروں کہانیاں ہیں، ہزاروں ڈرامے ہیں، مگر معاشرے کے ان اصل موضوعات پر تو کوئی ادب اور آرٹ تخلیق نہیں کررہا لیکن استثنائی مثالیں لوگوں کو خوب نظر آرہی ہیں۔ اس صورت حال کا مفہوم عیاں ہے۔ امریکہ، بھارت اور ان کے مقامی ایجنٹ معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک پر عسکری، سیاسی اور سفارتی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ثقافتی دہشت گردی بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ”ٹیلی وژن کا عروج“ قوم کا ”اخلاقی زوال“ بن جائے گا؟؟
پاکستان میں ہونے والے ٹیلی دھماکے میں مذہب، مذہبی فکر، مذہبی طبقات اور مذہبی شخصیات کے لیے ایک ”تعصب اور جہل“ موجود ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ توہینِ رسالت کے مسئلے پر بھی ٹی وی چینلوں میں ایسے گفتگو ہوئی جیسے توہینِ رسالت کا مسئلہ ”گلی محلے“ کا مسئلہ ہو۔ جیسے اس مسئلے میںکوئی تقدیس، کوئی عظمت اور کوئی حساسیت نہ ہو۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ ہمارے ٹی وی چینل سیکولر اور لبرل جماعتوں کی چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں اور معمولی اجتماعات کو بھی براہِ راست پیش کرتے ہیں، لیکن مذہبی جماعتوں کی بڑی بڑی سرگرمیاں اور بڑے بڑے اجتماعات کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے، یا انہیں اس طرح پیش نہیںکیا جاتا جس طرح معروضی طور پر اور صحافتی اخلاق کے مطابق پیش کرنا چاہیے۔ ٹی وی کے مذاکروں میں یہ بات بھی نوٹ کی جاتی ہے کہ مذہبی شخصیت کو ”اقلیت“ کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً مذہبی شخصیت ایک ہوتی ہے تو سیکولر شخصیات تین۔ اور عام طور پر سیکولر طبقات سے بھاری بھرکم شخصیات کو بلایا جاتا ہے اور مذہبی طبقات سے کمزور لوگ تلاش کرکے بلائے جاتے ہیں۔
اس صورت ِحال کا ہولناک ترین پہلو یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کو ان تمام حقائق کا علم ہی نہیں۔ وہ صحافت اور ٹیلی وژن کے ذرائع اور ان کے مواد کو گہرائی سے دیکھتی ہی نہیں۔ چنانچہ ان حقائق کے شعور کو عام کرنا بجائے خود ایک جدوجہد بن گیا ہے۔ کیا آپ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے....؟؟

No comments:

Post a Comment