Thursday, June 14, 2012

استاد اورشاگرد

زمانہ کتنا بدل گیا ہے، اِس کا اندازہ دوسری باتوں کے علاوہ اس چیز سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ استادوں کو شکایت ہے کہ اب شاگرد‘ شاگرد نہیں رہے۔ اس کے برعکس شاگردوں کا شکوہ یہ ہے کہ اب استادوں کو استاد کہنا دشوار ہے۔ حالانکہ دنیا میں ایک طویل زمانہ ایسا گزرا ہے جب شاگرد کہا کرتے تھے کہ ہم جو کچھ ہیں اپنے استاد کی وجہ سے ہیں، اور استاد اپنے شاگردوں کا ذکر اس طرح کیا کرتے تھے جیسے وہ شاگرد نہ ہوں آسمان کے تارے ہوں۔
استادی اور شاگردی کی روایت کی سب سے خوبصورت مثال سقراط اور افلاطون کی ہے۔ سقراط انسانی تاریخ میں بے پناہ علم کی علامت ہے، مگر اس کا تعلق آج کل کی اصطلاح میں متوسط بلکہ زیریں متوسط طبقے سے تھا۔ اس کے برعکس افلاطون کا تعلق طبقہ ¿ امراءسے تھا، لیکن سقراط کی شخصیت اور علم میں ایسی کشش تھی کہ اس نے طبقاتی نفسیات کو زیرو زبر کردیا تھا، اور افلاطون کو سقراط سے ایسی محبت تھی کہ وہ اس کے لیے جان بھی دے سکتا تھا۔ سقراط کو موت کی سزا ہوگئی تو افلاطون کے لیے اپنے ملک میں رہنا محال ہوگیا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ ایسی جگہ پر کیسے رہا جاسکتا ہے جہاں سقراط کو موت کی سزا دی گئی ہو۔ چنانچہ اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا اور کئی سال تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ افلاطون بالآخر واپس لوٹا لیکن سقراط کی علمی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے۔ سقراط کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ زبانی روایت یعنیOral Tradition کا آدمی تھا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا اُسے لکھتا نہیں تھا بلکہ گفتگو یا مکالمے میں بیان کردیتا تھا۔ افلاطون کا کمال یہ ہے کہ اس نے سقراط کی تقریرکو تحریر بنادیا لیکن سقراط کے مکالمے کے حسن کو زائل نہیں ہونے دیا۔ مغربی فلسفے میں افلاطون کی اہمیت یہ ہے کہ وائٹ ہیڈ نے پورے مغربی فلسفے کو افلاطون کی فکر پر حاشیہ یا Foot note قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود افلاطون کی اپنے استاد سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنی عظیم ترین تصنیف ”مکالمات“ کو سقراط کی زبان سے برآمد ہوتے دکھایا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کسی شاگرد نے اپنے استاد کے لیے ایسی قربانی پیش نہیںکی۔ لیکن افلاطون کی اس قربانی نے اُس کی عظمت کو اور بڑھا دیا ہے۔
اسلامی تاریخ میں مولانا روم اور شمس تبریز کا تعلق بے مثال ہے۔ مولانا روم جوان تھے اور ایک عالم کے طور پر ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک روز وہ تالاب کے کنارے کتابیں پھیلائے مطالعے میں مشغول تھے کہ ایک درویش کا وہاں سے گزر ہوا۔ درویش نے مولانا روم کی کتب کی طرف اشارہ کرکے پوچھاکہ یہ کیا ہے؟ مولانا نے درویش کی طرف ایک نظر دیکھا اور کہا کہ یہ چیز تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ مولانا کے یہ کہتے ہی درویش نے مولانا کی ساری کتابیں تالاب میں پھینک دیں۔ مولانا ششدر رہ گئے اور انہوں نے ناراض ہوکر درویش سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ درویش نے ایک اشارہ کیا اور تمام کتابیں تالاب سے خودبخود باہر آگئیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ سب کی سب خشک تھیں۔ مولانا نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ درویش نے کہا: یہ چیز تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یہ شمس تبریز تھے۔ ایک ہی ملاقات نے مولانا کو شمس تبریز کا عاشق بنادیا۔ لیکن شمس تبریز اور مولانا کا تعلق چند سال برقرار رہا۔ اس کے بعد شمس تبریز مولانا کی زندگی سے اس طرح غائب ہوئے کہ جیسے کبھی ان کی زندگی میں آئے ہی نہیں تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ شمس تبریز کو مولانا کے کچھ شاگردوں نے حسد کی وجہ سے قتل کردیا۔ لیکن یہ روایت مستند نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شمس تبریزکے زندگی سے چلے جانے کے بعد مولانا روم نے انہیں اس طرح یاد کیا ہے جیسے عاشق محبوب کو یاد کرتا ہے، یہاں تک کہ مولانا نے اپنی غزلیہ شاعری کے دیوان کا نام ”دیوانِ شمس تبریز“ رکھ دیا، حالانکہ اس میں شمس تبریز کا ایک شعر بھی موجود نہیں تھا۔
ہمارے زمانے میں اقبال استادی اور شاگردی کی شاندار روایت کے ایک بڑے ترجمان بن کر سامنے آتے ہیں۔ اقبال نے میرحسن سے صرف اسکول کی سطح تک پڑھا تھا، لیکن ان کی شخصیت پر میرحسن کی شخصیت کا اتنا گہرا اثر تھا کہ جب انگریزوں نے اقبال کو ”سر“کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ پہلے میرے استاد میرحسن کو ”شمس العلمائ“ کا خطاب دیا جائے، اور انگریز حکومت کو اقبال کی بات ماننی پڑی۔ شاعری میں اقبال کے استاد داغ دہلوی تھے۔ داغ کی شاعری موضوع کی سطح پر محدود تجربے کی شاعری ہے۔ فنّی سطح پر اسے زبان اور رعایتِ لفظی کی شاعری کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اقبال نے داغ دہلوی کی شخصیت میں ایک درجے کی عظمت دریافت کی ہے اور اردو شاعری میں ان کی خدمات کی کھل کر تعریف کی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے داغ کو دلّی کا آخری شاعر کہا ہے۔ داغ پر اقبال کی نظم کے دو بند ملاحظہ فرمائیے:
اب کہاں وہ بانکپن وہ شوخی ¿ طرزِ بیاں
آگ تھی کافورِ پیری میں جوانی کی نہاں
تھی زبانِ داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے
لیلیٰ ¿ معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
اب صبا سے کون پوچھے گا سکوتِ گل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نالہ ¿ بلبل کا راز
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
٭٭
اور دکھلا گئے مضمون کی ہمیں باریکیاں
اپنے فکرِ نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
تلخی ¿ دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے
یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبلِ شیراز بھی
سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحبِ اعجاز بھی
اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے
مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون؟
ہمارے زمانے میں محمدحسن عسکری اور فراق کا تعلق استادی اور شاگردی کی پرانی روایت کو ایک نئے عنوان سے سامنے لاتا ہے۔ عسکری صاحب فراق کے شاگرد تھے اور وہ یہ بات ساری زندگی دنیا کو بتاتے رہے۔ فراق کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ نقاد تھے، شاعر تھے، مغربی ادب کے استاد تھے۔ اس کے باوجود انہیں اپنے شاگرد محمد حسن عسکری کے تنقیدی کمالات کا پورا شعور تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے جرا ¿ت پر عسکری صاحب کا مضمون پڑھ کر ان سے کہاکہ عسکری میری خواہش ہے کہ تم میرے مرنے سے پہلے مجھ پر ایک ایسا ہی مضمون لکھ دو جیسا کہ تم نے جرا ¿ت پر لکھا ہے۔ عسکری صاحب فراق پر ایسا مضمون تو نہ لکھ سکے لیکن انہوں نے فراق کی شاعری کی بے پناہ تعریف کی، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ اردو شاعری نے میر تقی میرکا ایک ہی جواب یا عسکری صاحب کے اپنے الفاظ میں ایک ہی Container پیدا کیا ہے۔ یہ فراق کی مبالغہ آمیز تعریف ہے۔ بلاشبہ فراق کا مرتبہ جدید اردو شاعری میں جوش اور فیض سے بلند ہے۔ لیکن ان کو کسی بھی حوالے سے میر کی سطح پر لاکر نہیں دیکھا جاسکتا۔ البتہ ذوق بلاشبہ اردو کے سب سے بڑے تاثراتی نقاد ہیں۔ تاہم عسکری صاحب نے فراق کی شاعری کی جو تعریف کی، اس سے اورکچھ نہیں تو یہ ضرور ظاہر ہوجاتا ہے کہ شاگرد کو اپنے استاد سے کیسی محبت اورکیسی عقیدت ہے۔ یہاں تک کہ اسے اپنے استادکی تعریف کرتے ہوئے اپنی ساکھ کا بھی خیال نہ رہا۔
عسکری صاحب کو جیسی محبت فراق سے تھی اُس سے ہزار گنا زیادہ محبت عسکری کے شاگرد سلیم احمد کو عسکری صاحب سے تھی۔ سلیم احمد ساری زندگی کہتے رہے کہ مجھے ادب میں جو کچھ آتا ہے عسکری صاحب کی وجہ سے آتا ہے۔ عسکری صاحب سلیم احمدکے لیے ایک فرد نہیں ایک تجربہ تھے۔ ایک واردات تھے۔ عسکری صاحب سلیم احمد سے ملنے ان کے گھر جاتے اور کوئی بتادیتا کہ عسکری صاحب آرہے ہیں تو سلیم احمد ننگے پاﺅں اُن کے استقبال کے لیے دوڑتے۔ سلیم احمد نے لکھا ہے کہ میری شخصیت پر عسکری صاحب کا اثر میرے والد سے بھی زیادہ ہے۔ عسکری صاحب کا انتقال ہوا تو سلیم احمد پی ٹی وی پر آئے اور رو دیے۔ انہوں نے اپنے کالموں اور گفتگوﺅں میں عسکری کا اتنا ذکرکیا ہے کہ وہ عسکری کے شاگرد سے زیادہ عسکری کے مجاور نظر آتے تھے۔ لیکن انہیں اس کی پروا نہیں تھی۔ انہیں اپنے استاد سے حقیقی محبت تھی اور یہ محبت خود ان کی شخصیت سے بھی زیادہ اہم تھی۔ افسوس اب ہماری علمی وادبی زندگی میں نہ اب ایسے استاد ہیں نہ ایسے شاگرد جو ایک دوسرے پر فدا ہوں۔

No comments:

Post a Comment