Tuesday, June 19, 2012

خود پسندی

-انسانیت کی تاریخ دو مرکزی رجحانات کی تاریخ ہے۔ خدا پرستی کی تاریخ اور خود پسندی کی تاریخ۔ خدا پرستی کی تاریخ پیغمبروں اور ان کے ورثا کی تاریخ ہے اس کے برعکس خود پسندی کی تاریخ شیطان اور اس کے پیروکاروں کی تاریخ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا مگر وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر ممنوعہ درخت کا پھل کھا بیٹھے لیکن پھل کھاتے ہی ان کو احساس ہوگیا کہ ان سے گناہ کا ارتکاب ہوگیا چنانچہ ایک بے پناہ ندامت نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ روایات میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام گناہ کرنے کے بعد درختوں کے پیچھے چھپ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا آدم تم ایسا کیوں کررہے ہو؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا آپ کے سامنے آنے سے شرم آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت آدم علیہ السلام کی یہ ادا پسند آئی چنانچہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو توبہ سکھائی۔ دونوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرکے انہیں معاف کردیا۔ یہ خدا پرستی کی تاریخ کا پہلا روشن باب تھا۔ اس وقت سے آج تک صاحب ایمان انسانوں اور اللہ تعالیٰ کے تعلق کی تاریخ یہ ہے کہ اگر کسی صاحب ایمان شخص سے لاکھوں گناہ بھی ہوجائیں مگر وہ صدق دل سے توبہ کرلے تو اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کے گناہ نسیان یعنی بھول کا نتیجہ ہوتا ہے اور نسیان انسان کے ساتھ ہے۔ انسان کی توبہ اس لیے بھی قبول کرلی جاتی ہے کہ توبہ کا مطلب اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا ہے اور رجوع کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں اپنے غلط فکر و عمل پر اصرار نہیں بلکہ ہم اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ابلیس کا طرزِ عمل یہ تھا کہ اسے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو سجدے کا حکم دیا گیا مگر اس نے حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنی رائے اور اپنے فہم کو خدا کے حکم اور اس کے علم پر ترجیح دی۔ ابلیس کی دوسری شیطنت یہ تھی کہ اس نے صرف حکم عدولی نہیں کی بلکہ اس پر اصرار کیا۔ یہاں تک کہ اس نے حکم عدولی کو مدلل بنانے کی کوشش کی اور کہاکہ آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں اور مجھے آگ سے تخلیق کیا گیا ہے اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ ابلیس کی شیطنت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ابلیس کا ’’انکار‘‘ اکتسابی یا Acquired نہیں تھا۔ یعنی اس نے حکم عدولی کسی سے سیکھی نہیں تھی بلکہ یہ اس کی خود پسندی کا نتیجہ تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خود پسندی کا رجحان اپنی اصل میں شیطانی ہے۔ انسانیت کے پورے سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو انبیا و مرسلین سے زیادہ اہم کوئی بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیا و مرسلین اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ لوگ ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی، کسی سے کلام کیا، کسی کو خلیل بنایا، کسی کو روح اللہ کا خطاب عطا کیا اور کسی کو اپنا حبیب قرار دیا۔ آخرت میں بھی انبیا و مرسلین کا مقام سب سے زیادہ بلند ہوگا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انبیا و مرسلین کو سب سے زیادہ ’’خود پسند‘‘ ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس انبیا و مرسلین نفس کشی، تواضع اور انکسار کی سب سے بڑی علامتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے یہی کہاکہ ہم میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ انبیا و مرسلین کے وارثین کا طرزِ عمل بھی یہی رہا ہے کہ انہوں نے اپنی ہر خوبی کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے اندر اگر کوئی برائی ہے تو وہ ہمارے نفس کی کسی کمزوری کا حاصل ہے یا شیطان کے وسوسے کا نتیجہ۔ اس کے برعکس تاریخ میں بدترین انسانوں نے محض خود پسندی کی بنیاد پر خود کو دنیا کا بہترین انسان باور کرایا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی خود پسندی نے ان سے خدائی کے جھوٹے دعوے کرائے ہیں۔ نمرود، فرعون اور ابوجہل تاریخ میں خود پسندی کی بڑی علامتیں ہیں۔ ابوجہل فرعون کی طرح ’’بادشاہ‘‘ نہیں تھا ، لیکن اس کی خود پسندی فرعون سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں حق کی جو سطح ہوتی ہے باطل کی بھی وہی سطح ہوجاتی ہے، مثلاً فرعون کے مقابلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے جو کلیم اللہ تھے اور ابوجہل کے مقابلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو حبیب اللہ تھے، چنانچہ ابوجہل کی خود پسندی اور اس کا انکار فرعون کی خود پسندی اور انکار سے بڑھ گیا تھا۔ فرعون نے اپنے لشکر کو دریا میں غرق ہوتے دیکھا تو کہاکہ میں موسیٰ علیہ السلام کے خدا پر ایمان لاتا ہوں مگر ابوجہل کو جنگ بدر میں شکست ہوگئی اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر گیا تو اس نے اپنے سینے پر بیٹھے ہوئے نوجوان صحابی رسول سے کہاکہ میری گردن اس طرح کاٹنا کہ جب وہ کٹی ہوئی گردنوں کے درمیان رکھی ہو تو سب سے بلند نظر آئے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ خود پسندی کے منفیت کیا ہے؟ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو خود پسندی میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں جو خوبی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ انسان نہ خود حسین بن سکتا ہے، نہ ذہین بن سکتا ہے، نہ وہ خود صاحب علم ہوسکتا ہے، نہ اسے ازخود دولت حاصل ہوسکتی ہے، نہ وہ خود مسند اقتدار پر بیٹھ سکتا ہے،نہ وہ خود عزت و توقیر کے تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی توفیق کے بغیر ٹھیک بھی نہیں ہوسکتا۔ لیکن خود پسندی انسان کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہونے دیتی یا انسان کو ادراک ہوتا بھی ہے۔ تو خود پسندی اس ادراک کو تہہ و بالا کرکے انسان کے شعور پر قابض و متصرف ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود پسندی حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ انسان کو خدائی کے دعوے تک لے جاتی ہے۔ خود پسندی کا یہ ضرر بھی کم ہولناک نہیں کہ خود پسندی انسان کو دوسرے انسانوں سے کاٹ دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود پسندی کی عمارت دوسروں کے انکار، ان کی تحقیر اور ان کی تذلیل پر تعمیر ہوتی ہے۔ چنانچہ خود پسند انسان محبت اور انسانی تعلق کے حوالے سے دنیا کا ’’غریب ترین انسان‘‘ ہوتا ہے۔ خود پسند انسان کا ’’خیال‘‘ ہوتا ہے کہ وہ صرف ’’غیروں‘‘ کو خود سے کمتر سمجھتا ہے ’’اپنوں‘‘ کی اس کے دل میں بڑی قدر ہے مگر یہ خیال فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے کہ انسانی زندگی میں خانہ بندی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ غیروں کی تحقیر ’’اپنوں‘‘ کے حصے میں بھی آکر رہتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اس کے ’’بنیادی رجحانات‘‘ کے زیر اثر ہوتی ہے ثانوی رجحانات کے زیر اثر نہیں۔ چنانچہ اگر کسی شخص کا بنیادی رجحان تحقیر اور تذلیل کا ہو تو وہ چاہ کر بھی اپنوں کو تحقیر اور تذلیل سے نہیں بچا سکتا۔ اس صورتِ حال کا مفہوم واضح ہے۔ خود پسند شخص کے لیے اپنے بھی ’’غیر‘‘ ہوتے ہیں خواہ اسے یا اس کے اپنوں کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خود پسند شخص خدا ہی سے نہیں انسانوں سے بھی دور ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود پسند شخص خود اپنے آپ سے بھی دور ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود پسند شخص دنیا کا تنہا ترین انسان ہوتا ہے اور تنہا شخص کی نہ سماجیات صحت مند یا Normal ہوتی ہے نہ اس کی نفسیات صحت مند یا Normal ہوتی ہے۔ خود پسند شخص کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ اسے کبھی یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ دوسرے جہاں ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہیں وہیں دوسروں کے ہونے سے ہی ہماری مسرتوں کا وجود ہے۔ خود پسند کی ایک ہلاکت آفرینی یہ ہے کہ وہ انسان کے خارجی اور باطنی ارتقا کی راہیں مسدود کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود پسند شخص خود کو ’’کامل‘‘ سمجھ لیتا ہے اور شخص خود کو کامل سمجھ لے اسے گویا اپنی شخصیت کی مزید تعمیر کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود پسندی انسان کو خدا اور دوسرے انسانوں ہی سے نہیں اپنے آپ سے بھی دور کردیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے انسان کو انسان بھی کہنا چاہیے یا نہیں۔ خود پسندی کی اکثر صورتیں دولت، طاقت اور نام و نسب سے متعلق ہوتی ہیں۔ دولت اور سیاسی طاقت کی قوت بے پناہ ہے اور ان سے اکثر یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ دنیا میں دولت اور طاقت سے بڑا شرف کوئی نہیں۔ لیکن تقوے اور علم نے تاریخ کے اکثر مراحل پر دولت اور سیاسی طاقت کو چیلنج کرکے ان کے ’’معمولی پن‘‘ کو ظاہر کیا ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ تقویٰ اور علم خود انسان میں خود پسندی پیدا کردیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ تقوے اور علم کی خود پسندی آسانی سے نہ معلوم ہوپاتی ہے نہ اس سے آسانی سے نجات ممکن ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقوے اور علم کی خود پسندی مذہبی اور علمی اصطلاحوں میںکلام کرتی ہے۔

No comments:

Post a Comment