Monday, July 9, 2012

مذہب اور بدلا ہوا منظرنامہ

مسلمانوں کی تاریخ کا ایک زمانہ وہ تھا جب مذہب مسلمانوں کی ترجیح اوّل تھا اور وہ مذہب کے لیے اپنی زندگی کی بہترین چیزیں وقف کرتے تھے… اپنی زندگی کا بہترین زمانہ، اپنی زندگی کا بہترین وقت، اپنی زندگی کا بہترین علم، اپنی زندگی کی بہترین ذہانت۔ امام غزالیؒکہنے کو ایک فرد تھے مگر ان کا علم اور ان کی ذہانت امتوں کے علم اور امتوں کی ذہانت سے زیادہ تھی۔ غزالیؒ کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے ایک ہم عصر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہیں اور غزالیؒ وہاں موجود ہیں، اور سردار الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم غزالیؒ کی طرف اشارہ کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھ رہے ہیںکہ کیا تمہاری امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم ہے؟ اور دونوں جلیل القدر الانبیا فرما رہے ہیں کہ ہماری امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم نہیں۔ غزالی ایک فرد تھے مگر انہوں نے یونانی فلسفے کے چیلنج کا تن تنہا جواب دے کر پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کیا۔ غزالی کی بصیرت اور ذہانت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے یونانی فلسفے پر جو بنیادی اعتراضات کیے ان پر آج تک نہ کوئی اضافہ کرسکا ہے اور نہ غزالی کے کسی اعتراض کو کوئی ساقط کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ غزالی کی تحریروں پر اب گویا ایک ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن ان کی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جسے پرانا یا غیر ضروری قرار دیا جاسکے۔ چنانچہ غزالی کی تحریروں سے آج بھی اسی طرح خوشہ چینی کی جاسکتی ہے جس طرح غزالی کے زمانے میں کی جاتی تھی۔ غزالی ایک نام ہے مگر غزالی دراصل مسلمانوں کی تاریخ میں علم اور ذہانت کی ایک علامت اور عمومی صورت ِحال کا ایک عکس ہیں۔ ہماری تہذیب میں مذہب اور ادب کا باہمی تعلق یہ ہے کہ مذہب جس چیز کو حقیقت کی اصطلاح میں بیان کرتا ہے ادب اس چیز کو مجاز کی سطح پر ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح ادب بالخصوص شاعری مذہب کے ’’معلوم‘‘ کو ’’محسوس‘‘ بنانے کا فرض ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کے بعد ادب خاص طور پر شاعری کو ہماری تہذیب میں سب سے زیادہ علم اور ذہانت فراہم ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی علامت مولانا روم اور ان کی شاعری ہے۔ رومی کی عظمت یہ ہے کہ اقبال جیسے شاعر نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ میں جب مولانا کو یعنی ان کی شاعری کو پڑھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا روم ایک سمندر ہیں اور میں اس کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ ہوں۔ اقبال کے اس بیان میں کوئی ’’مبالغہ‘‘ نہیں، بلکہ یہ ایک ’’امرِ واقع‘‘ ہے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ وہ دو مصرعوں میں پوری زندگی کا ست یا Gist نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎ علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود یعنی تُو علم کا اثر جسم پر لے گا یا علم کو دنیاوی فائدے کے لیے استعمال کرے گا تو وہ سانپ بن کر تجھ کو ڈس لے گا، اور اگر تُو علم کا اثر دل پر لے گا جو کہ ہماری تہذیب میں دارالحکمت ہے تو علم تیرا دوست بن جائے گا۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؎ آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشند کہ دید دوست است یعنی سوال یہ ہے کہ آدمی کیا ہے؟ مولانا کہتے ہیں کہ آدمی ’’دید‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود دید کیا ہے؟ مولانا فرماتے ہیں: دید یہ ہے کہ تجھے دوست یعنی خود کا دیدار نصیب ہوجائے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مذہب ہماری ترجیحات کی فہرست میں سب سے نیچے چلا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کے 98 فی صد طالب علم سماجی اور معاشی اعتبار سے نچلے طبقات سے آتے ہیں، اور وہ بھی اپنی مرضی اور رغبت سے نہیں بلکہ مجبوراً آتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیم اور رہائش مفت ہوتی ہے اور لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جن کے لیے یہ بڑی سہولت ہے کہ ان کے بچے تھوڑا بہت علمِ دین بھی سیکھ لیں اور وہ معاشی اعتبار سے ان پر بوجھ بھی نہ بنیں۔ لیکن زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے محبت کے ساتھ تعلق استوار کرتا ہے تو اسے محبت میسر آتی ہے، اور کسی چیز سے وہ ’’ضرورت‘‘ کا رشتہ استوار کرتا ہے تو اس کی پوری نفسیات ضرورت کی نفسیات بن کر رہ جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ دینی مدارس میں ضرورتاً یا مجبوراً آتے ہیں وہ دینی علوم کو تھوڑا بہت رٹ تو لیتے ہیں مگر ان علوم میں اضافے کی اہلیت ان میں کبھی پیدا نہیں ہوپاتی۔ چونکہ مسلم معاشروں میں دنیا خدا سے زیادہ ’’دلکش‘‘ ہوگئی ہے اس لیے ہماری اعلیٰ ترین ذہانتیں اور اعلیٰ ترین علم دنیا کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا ہر ذہین طالب علم یا تو مادی علوم یا Sciences کی نذر ہورہا ہے، یا کاروباری علم کی کشش نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ اب لوگوں کو مذہب کیا، فنون یا سماجی علوم تک عزیز نہیں رہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو علم کے پانچ مدارج ہیں: (1) خدا کی ذات و صفات اور اس کے احکامات کا علم اور اس سے تعلق کا بیان (2) انسان کی تفہیم فراہم کرنے والا علم (3)حیوانات سے متعلق علم (4) نباتات سے متعلق علم (5) جمادات سے متعلق علم اس فہرست کو دیکھا جائے تو خدا کی ذات و صفات، اس کے احکامات اور اس کے ساتھ تعلق کا علم عظیم ترین اور اہم ترین ہے، اور جمادات کا علم پست ترین علم ہے، لیکن ہماری دنیا نے مادے کے علم کو سر کا تاج بنادیا ہے اور خدا کی ذات و صفات کیا انسان کی ذات و صفات کے علم کو بھی وہ خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم صرف مذہبی علوم کی تعلیم تھوڑی دیتے ہیں، ہم نے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ بھی کھولا ہوا ہے۔ لوگ شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ شاعر و ادیب ہیں یہ تو ٹھیک ہے، مگر یہ کام کیا کرتے ہیں؟ شاعروں، ادیبوں کو یقینا ’’کام‘‘ بھی کرنا چاہیے مگر پوچھنے والے جب ’’کام‘‘ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو اُن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ پیسے کتنے کماتے ہیں۔ یعنی شاعری کرنا یا افسانہ لکھنا لوگوں کے نزدیک فی نفسہٖ اہم بات نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی ایم بی اے یا سی اے سے کسی کو یہ پوچھتے نہیں سنا کہ میاں آپ ایم بی اے یا سی اے ہیں یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ ’’تخلیق‘‘ کیا کرتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment