Monday, July 9, 2012

بدلہ

بدلے کی نفسیات اگرچہ انسان کے ساتھ ہمیشہ سے ہے لیکن ہمارے زمانے میں ماحول کا جبر اور بدلے کی نفسیات باہم آمیز ہوکر ایک ایسی حقیقت بن گئے ہیں جو منفی معنوں میں ہمارے زمانے کی تعریف متعین کررہی ہے۔ ساحر لدھیانوی کا ایک مشہورِ زمانہ شعر ہے ؎ دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں ساحر لدھیانوی کے اس شعر کا انسان ماحول کے جبر اور بدلے کی نفسیات کا بری طرح شکار ہے۔ اسے اس کے ماحول کے جبر نے جو کچھ بنادیا ہے وہ بن گیا ہے، اور اسے اپنے ماحول سے جو اچھے برے تجربات فراہم ہوئے ہیں وہ انہی تجربات کو دنیا کی جانب لوٹا رہا ہے۔ اس کو چار اچھے تجربے ہوئے تو اس نے چار اچھے تجربے دنیا کو واپس کردیے، اور اسے سو برے تجربات ہوئے تو اس نے دنیا کو سو برے تجربات لوٹادیے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس انسان کی زندگی میں نہ خدا موجود ہے، نہ مذہب موجود ہے، نہ معاف کرنے کی روایت کا شعور موجود ہے، نہ ایسا تخلیقی عمل موجود ہے جو برے تجربات کے ذریعے بھی انسان کو اچھی، مثبت اور خوبصورت چیزوں تک لے جاتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کا انسان تو بس اُس گیند کی طرح ہے جسے دیوار پر جتنی قوت سے مارا جائے گا اتنی ہی قوت سے وہ واپس لوٹے گی۔ لیکن انسان گیند نہیں ہے، وہ اشرف المخلوقات ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ فی زمانہ لوگ اشرف المخلوقات بننے کے بجائے گیند بننا زیادہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اشرف المخلوقات بننے میں نقصان ہی نقصان ہے، کیونکہ اشرف المخلوقات بن کر آدمی معاف کرنے والا بن جاتا ہے۔ بدلے سے دامن چھڑانے والا بن جاتا ہے۔ ہمارے دور میں بدلے یا جیسے کو تیسا کی نفسیات کا رجحان اتنا عام ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اس کے دائرے سے باہر نکل کر نہیں سوچ پاتی۔ ہمارے عہد کا شعر ہے ؎ برا کرو گے برا کریں گے بھلا کرو گے بھلا کریں گے ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے غور کیا جائے تو شعر کا مصرعۂ اولیٰ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ؎ ’’بھلا کرو گے بھلا کریں گے برا کرو گے برا کریں گے‘‘ مگر شاعر کو دوسروں سے برائی کی اتنی زیادہ توقع ہے کہ اس نے مصرعے کا آغاز بھلائی کے بجائے برائی سے کیا ہے۔ اس شعر کے مفہوم کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کے لیے فی نفسہٖ خیر اور شر کچھ نہیں ہیں۔ اصل چیز دوسرے کا عمل ہے۔ دوسرا اگر ہمارے ساتھ نیکی کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ نیکی کریں گے، اور اگر دوسرا برا کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ برا کریں گے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس شعر میں انسان ماحول کے جبر اور بدلے کی نفسیات کی گرفت میں ہے اور اس کی آزادی صفر بن کر سامنے آرہی ہے۔ دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کو بدلے کا جیسا حق حاصل ہے ویسا حق کسی کو حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ اس نے انسان کو ہدایت کی روشنی عطا کی، نیک و بد کی تمیز سکھائی۔ لیکن اس کے باوجود اربوں انسان گمراہی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور خدا انہیں مہلت دیے جارہا ہے۔ خدا کو کفر سب سے زیادہ ناپسند ہے مگر دنیا میں دو ڈھائی ارب کافر موجود ہیں اور خدا اُن کو نہ مارتا ہے نہ اُن سے ان کا رزق چھینتا ہے، نہ اُن سے ان کی صلاحیتیں واپس لیتا ہے۔ خدا کو شرک سخت ناپسند ہے اور دنیا میں ڈھائی تین ارب انسان شرک میں مبتلا ہیں، مگر خدا اُن کے لیے بھی سورج نکالتا ہے، اُن کے لیے بھی ہوا چلاتا ہے، اُن کے لیے بھی بارش برساتا ہے، اور اُن کے لیے دنیا کی کسی نعمت کی راہ بند نہیں کرتا۔ بلاشبہ یہ لوگ آخرت کی زندگی میں محرومیت کی تصویر بنے کھڑے ہوں گے اور وہاں انہیں اپنے کفر اور شرک کی سزا ضرور ملے گی، لیکن دنیا میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی ہزاروں نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو کبیرہ اور صغیرہ گناہ ناپسند ہیں، مگر کوئی شخص اگر ایک کروڑ گناہوں کے بعد سچی توبہ لے کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک لمحے میں اس کے سارے گناہ معاف کردیتے ہیں اور اس سے اس کے کسی گناہ کا بدلہ اور اس کے کسی گناہ کا انتقام نہیں لیتے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے صاف کہا ہے کہ تم برائی کو بھلائی سے دور کرو۔ یعنی برائی کے مقابلے پر برائی پیش نہ کرو بلکہ بھلائی پیش کرو۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ برائی کے مقابلے پر برائی پیش کرنے سے برائی بڑھتی ہے، اور برائی کے مقابلے پر بھلائی پیش کرنے سے برائی کا قلع قمع ہوتا ہے اور اس کی جگہ معاشرے میں بھلائی جڑ پکڑتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنے والوں میں انبیاء اور بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرفہرست ہیں۔ آپؐ کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپؐ نے ضرر پہنچانے والوں کو معاف کردیا، تکلیف دینے والوں کی دلجوئی کی اور شر کے مقابلے پر ہمیشہ خیر پیش کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام بدلے کے مطلق خلاف ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر کسی نے تمہیں ایک طمانچہ مارا ہے تو بہترین بات تو یہ ہے کہ اسے معاف کردو، کیونکہ یہ ’’احسان‘‘ ہے اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، لیکن اگر تمہارے قلب اور تمہارے نفس میں اتنی گنجائش نہ ہوکہ تم اسے معاف کرسکو تو تم بھی ایک طمانچے کے بدلے میں اپنے حریف کو ایک طمانچہ مار لو۔ لیکن زندگی کا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ جوابی طرزِعمل میں زیادہ شدت ہوتی ہے اور ایک طمانچہ کھانے والا جواب میں ایک کے بجائے کئی طمانچے مارتا ہے، اور تجاوز ظلم ہے۔ چنانچہ بدلہ ایک کمزور آدمی کے لیے بہت بڑا امتحان ہے، اور جو امتحان میں پڑا وہ سخت مشکل میں مبتلا ہوا۔ لیکن یہ بدلے میں مضمر واحد ضرر نہیں ہے۔ بدلے کی نفسیات اپنی اصل میں غلامی اور اسیری کی نفسیات ہے۔ انسان کہنے کو اپنے حریف اور اپنے دشمن کو سخت ناپسند کرتا ہے، لیکن بدلے کی نفسیات انسان کو اپنے دشمن کی محبت، یہاں تک کہ اس کو دشمن کی تقلید میں مبتلا کردیتی ہے۔ دشمن جو کچھ کرتا ہے انسان بھی وہی کچھ کرتا ہے۔ دشمن بری زبان استعمال کرتا ہے اور انسان اپنی ساری زندگی کی شرافت اور نجابت کو ترک کرکے جواب میں خود بھی بری زبان استعمال کرنے لگتا ہے۔ دشمن جھگڑے میں ہاتھ پائوں استعمال کرتا ہے اور انسان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے چکر میں خود بھی دشمن کی نقل کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ ٹھیک اپنے دشمن کی طرح بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دشمن کی محبت اور اس کی غلامی نہیں تو اور کیا ہے؟ دشمن ہمیں اپنے جیسا بنا لے اس سے بڑی ناکامی اور اس سے زیادہ افسوس اور شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے! اس کے مقابلے پر معاف کرنے کا عمل حقیقی معنوں میں آزادی کا عمل ہے۔ معاف کرنے والا انسان اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک آزاد انسان ہے۔ وہ اپنا طرزعمل خود متعین کرتا ہے۔ اسے اپنے دشمن کے عمل سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بدلے کی نفسیات انسان کے داخلی ارتقاء کے عمل کو روک دیتی ہے اور انسان کے خیالات، جذبات اور احساسات کی ایک سطح متعین کردیتی ہے، اور انسان ساری زندگی اسی سطح پر کھڑا رہ جاتا ہے۔ البتہ معاف کرنے کا عمل انسان کی داخلی گنجائش کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اس سے انسان کی روح کی تابندگی بڑھتی ہے، قلب میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ذہن زیادہ سے زیادہ لچک دار ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے دور میں بدلے کی نفسیات اتنی عام کیوں ہوگئی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بدلے کی نفسیات کا غلبہ اس امر کا عکاس ہے کہ مذہب ہماری زندگی میں یا تو موجود ہی نہیں، اور ہے تو ہم نے خود کو مذہب کے مطابق بنانے کے بجائے مذہب کو اپنے مطابق بنا لیا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان نے باطن کی زندگی کو ترک کرکے خارجی زندگی میں پناہ تلاش کرلی ہے، اور خارجی زندگی میں جو کچھ نظر آتا ہے وہی اہم ہوتا ہے، اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طاقت ور نظر آئے۔ بدلے کی نفسیات اپنی اصل میںکمزوری کی نفسیات ہے، لیکن ہماری خارج پرستی نے اسے طاقت کی نفسیات بنادیا ہے۔

No comments:

Post a Comment