میں یہ گفتگوسن رہاتھا اورخوف سے میرابدن کانپ رہاتھا۔ میرے وہم وگمان میں
بھی نہ تھاکہ اس مملکت خداداد پاکستان کی اسمبلی کا ایک رکن جس کی میں اس
کے مذہبی خیالات‘سیاسی جدوجہد اورعام آدمی کی سطح سے محنت کرکے یہاں تک
پہنچنے کی وجہ سے بہت عزت کرتاہوں۔ یہ شخص جمہوریت کے دفاع میں اس قدر
مبہوت ہوجائے گا۔ یوں تو اس کا تعلق ایک ایسی جماعت سے رہاہے جو اس ملک میں
گزشتہ سترسال سے اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن میرے
اللہ کی مصلحت تھی کہ جمہوریت کے اس نڈرسپوت کو ایک دوسری جماعت میں پناہ
لینا پڑی۔ اگریہ گفتگوکسی نجی محفل میں ہوئی ہوتی تو میں فون کرکے یا خود
اس کے دروازے پر حاضری دے کر سمجھاتاکہ آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ لیکن
چونکہ ایک ٹاک شومیں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اسے سن رہے تھے اس لیے
اگرمیں قلم نہ اٹھاتا توشاید اللہ کے حضور اپنی خاموشی کا کوئی جوازپیش نہ
کرسکتا۔ اس رکن اسمبلی کے ساتھ جب جمہوریت پرگرم جوشی سے بحث جاری تھی تو
ایک صاحب نے کہاکہ جس آئین کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ اس میں اللہ اور اس
کے رسول کی سنت اور احکام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اسی ملک میں
سودکا نظام نافذ ہے۔ جسے اللہ اپنے اوراپنے رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ
کہتاہے۔ بجائے شرمندگی‘ کوتاہی اورندامت سے سرجھکاکر یہ تسلیم کرتے کہ ہاں
ہم نادم ہیں‘ یہ ہماراقصور ہے‘ اس ممبراسمبلی نے وہی لہجہ اختیارکیاجوآج کل
ہمارے پاس سیاسی رہنما اپنے قائدین کے خلاف الزامات لگائے جانے پر
اختیارکرتے ہیں اورکہتے ہیں جائوجاکرعدالت میں ثابت کرو‘ عدالت کا دروازہ
کھٹکھٹائو‘ اسی عالم طیش میں ان ممبر اسمبلی نے کہااگر اس ملک میں سود کا
نظام جاری ہے تو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں جاتے۔ کاش یہ ممبراسمبلی حشرکے
میدان میں جب کوئی سایہ نہ ہوگا‘ جب چاروں جانب سناٹے میں میرے اللہ کی
آوازگونجے گی۔ ’’کون ہے آج کے دن کا مالک‘‘ تین دفعہ پکاراجائے گا۔ بڑے سے
بڑا مقرر جلسے لوٹنے والا ٹاک شومیں لوگوں کا ناک میں دم کرنے والا‘
پارلیمنٹ میں اپنی للکارسے ہیبت پیدا کرنے والا سب کے سب خاموش ہوں گے
اورپھر صداگونجے کی صرف اللہ جو قہارہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو چندلاکھ
ووٹ لے کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں
اورپھر ان چندلاکھ ووٹروں کے سامنے یہی جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہے۔ لیکن میرے
اس دوست اور ممبر اسمبلی کو یاد نہیں کہ اس سود کے نظام کے خلاف جنگ اللہ
اور اس کے رسولؐ نے شروع کی ہے اور یہ صرف سپریم کورٹ کے جج یا معاشیات کے
ماہرین کی ذمہ داری نہیں میری اورآپ سب کی ذمہ داری ہے۔سپریم کورٹ تو بعد
کی بات ہے کیا گزشتہ 9 سال جو آپ اسمبلی میں رہے بلکہ آپ کے ساتھ جو ایک
ہزارسے زیادہ ارکان اسمبلی روزجمہوریت‘انسانی حقوق‘ سسٹم ‘ قانون کی
بالادستی کی آوازبلندکرتے رہے‘ کیاایک سیکنڈکے لیے بھی انہوں نے اس جنگ میں
اللہ اور اس کے رسولؐ کا ساتھ دینے کے لیے منہ کھولا‘ کوئی نکتہ اعتراض
کوئی تحریک استحقاق‘کوئی بل‘ کوئی قرارداد‘کیا آپ نے کبھی کہاکہ جب میں
گھرسے نکلتاہوں تو ہرچوک‘ چوراہے اورگلی کوچے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے
خلاف جنگ کی دکانیںکھلی ہیں‘ اشتہارآویزاں ہیں‘ میں برداشت نہیں کرسکتا۔
یادرکھو پورا قرآن اٹھاکردیکھ لو رسول اللہ ﷺ کی احادیث اٹھالو‘ اللہ اور
اس کے رسول نے زناکے خلاف‘ جھوٹ کے خلاف‘ کرپشن اوربددیانتی کے خلاف‘ قتل
وغارت اورفتنے کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ سود کے خلاف کیاہے۔ اور اس
آیت میں لفظ ’’حرب‘‘ استعمال ہواہے۔ عربی زبان کوئی بھی ڈکشنری اٹھاکر حرب
کا لفظ ڈھونڈیں اس کے معنی پڑھیں آپ کو کسی مولوی کے پاس جانے یا اسے غلط
معنی بتانے پرلعن طعن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ آپ کو خوداپنی وہ صف
نظرآجائے گی جس میں آپ اللہ اور اس کے رسول کے مقابل کھڑے ہیں۔ اگرآپ واقعی
یہ سمجھتے تو پھر آپ کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی’’توپھر جائونا‘ سپریم
کورٹ کے پاس‘‘ آپ کس مرض کی دوا ہیں۔ ہم آپ کا دامن کیوں نہ پکڑیں جنہوں نے
قانون بناناہے‘ غلط قانون پرآوازبلند کرناہے۔ جناب والا میں آپ کی
یاددہانی کے لیے قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر278-79 تحریرکیے
دیتاہوں۔ ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑوجوجو سودباقی رہ گیاہے
اگرتم مومن ہو۔ اگرتم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان
جنگ ہے۔ میں آپ کو شافع محشرسیدالانبیاء ﷺ کے ارشادات بھی پیش کردیتاہوں۔
آپ نے فرمایاسود کے سترگناہ ہیں۔ ان میں ادنیٰ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی
ماں کی بے حرمتی کرے۔ (سنن ابن ماجہ 165) پھرفرمایا۔ ’’سود کا ایک درہم
کھانا چھتیس مرتبہ زناسے زیادہ شدید جرم ہے۔ بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم
ہو کہ یہ درہم سودکاہے (مسند احمد225-5) ایک اور حدیث کے مطابق ’’ایک درہم
جس کو کوئی شخص سودسے حاصل کرے اللہ کے نزدیک 33 زانیوں کے حالت اسلام میں
زناکرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔‘‘
آپ اس ملک میں سسٹم کا تحفظ کیجیے‘ جمہوریت کی بقا کے لیے قربانیاں دیجیے‘
لیکن روزمحشریہی فقرہ دہرانے کے لیے بھی تیارہوجائیے کہ ہم نے کہہ
دیاتھا۔’’جائوسپریم کورٹ کے پاس‘‘۔ آپ بہت حوصلے والے جوانمردہیں۔ لیکن پتا
نہیں کیوں میں نے رات کے پچھلے پہر اللہ سے آپ کے لیے مغفرت اورہدایت کی
دعاکی۔ شاید اس لیے کہ کہیں یہ فقرہ آپ سے انجانے میں نہ نکل گیاہو۔ میں آج
بھی آپ سے نیک گمان رکھتاہوں۔ لیکن آپ نے اللہ کے حضور اپنے خلاف اٹھارہ
کروڑ گواہ بنالیے ہیں۔ اللہ آپ کو ہدایت دے‘ آپ سپریم کورٹ جانے کا مشورہ
دینے کے بجائے اسمبلی کے ایوان میں سودکے خلاف آوازاٹھانے والے مجاہدبن
جائیں۔ یادرکھیں اللہ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت رہتی ہے یا
ڈکٹیٹرشپ‘ سسٹم رہتاہے یا انارکی‘ اس کی ترجیحات اور ہیں اور وہ اپنی
ترجیحات پرحساب لے گا۔ لیکن شاید یہ ترجیحات میرے ملک کے رہنمائوں کی نہیں
ہیں۔ وہ کس قدرمگن ہیں۔ الیکشن کمشنر آگیاہے ‘معاہدے ہورہے ہیں‘ الیکشن کی
تیاری ہے‘ گٹھ جوڑ ہورہے ہیں۔ جلسے ‘جلوس اور منشورکی تیاریاں ‘ سب کچھ
کتنا دلچسپ ہے۔ اس ساری گہما گہمی میں روزقتل بھی ہوتے ہیں‘ فاقے بھی چل
رہے ہیں‘ خودکشیاں بھی ہورہی ہیں‘ بے بس اورخاموش عوام کا غصہ اندرہی
اندرابل رہاہے‘ لیکن شاید میرا اللہ اس غصے کے ابلنے کا بھی انتظارنہ کرے‘
صاحبان نظرآسمان کی جانب دیکھتے ہیں توکانپ اٹھتے ہیں یوں لگتاہے ایک سمندر
انتظارکررہاہوحکم کا۔ یوں لگے کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہے۔ ایسے میں کسی کو
کچھ یاد نہ رہے گا نہ جمہوریت‘ نہ آمریت‘ نہ سسٹم اور نہ آئین ‘ نہ ٹاک شو
اور نہ تقریریں۔ جب زمین سمندربن جائے تو پھر اپنے اللہ کے حضور معافی کے
لیے گڑگڑائوگے۔(بشکریہ ایکسپریس)
No comments:
Post a Comment