-
آج کی کافرانہ دنیا میں جب کوئی تہوارآتاہے اور اس کی وجہ سے خریدوفروخت
میں اضافہ ہوتاہے تو روز مرہ کی اشیاء خصوصاً اس تہوارسے متعلقہ اشیاء کی
قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے بلکہ دکانوں کے باہرسیل کے بڑے بڑے نمایاں
بورڈلگادیے جاتے ہیں۔ (اب پاکستان میں میڈیا آزاد ہے ۔آزاد کیوں ہے پتا نہیں!شاید اس لیے اس اسلامی مملکت میں انتشار،فحاشی، دین سے بیزاری،دشمنوں سے وفاداری ہی ان کا ذریعہ معاش بن چکا ہے۔ یہ چینلز مذہبی تہوار کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ لوٹ مار کا ،زیادہ سے زیادہ پیسے بنانے کے تہوار ہیں۔ان چینلزبیٹھے اینکر اور ان کے مالکان کا کردار تو سب کے سامنے آہی چکا ہے) ہرکوئی حسب توفیق سستی خریداری کرتاہے۔ اشیاء کے
معیارمیں کوئی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی تاجرانہ اخلاقیات پرکوئی آنچ آنے دی
جاتی ہے۔ چنانچہ اس تہوارکے گزرنے پردکانیں خالی ہوجاتی ہیں اورپھر رفتہ
رفتہ نئی اشیاء سے بھرجاتی ہیں۔ نئی قیمتوں کے ساتھ اور نئے معیار
اورکوالٹی کے ساتھ یہ ایک معمول ہے اورایسا مستقل معمول ہے کہ کئی لوگ ایسی
کسی سیل اورتہوارکی آمد کے منتظررہتے ہیں اور اس کی آمدتک ہاتھ روکے رکھتے
ہیں۔ ایسے تہوارہمارے ہاں بھی آتے ہیں لیکن بالکل برعکس ’’اسلامی
‘‘اندازمیں۔ ہمارے ہاں عیدوںکے تہوارکے علاوہ رمضان المبارک کا ایک
تہوارظاہرہے کہ ہرسال آتاہے لیکن علماء اور واعظوں کے بقول برکت کے اس
مہینے میں ہم عامتہ المسلمین کی جیبوں پرہی نہیں ان کی کھالوں پربھی ڈاکا
ڈالتے ہیں اور انہیں ننگاکردیتے ہیں۔ یہ ہمارا اسلامی اخلاق ہے۔ یہ سلسلہ
اگر اسی طرح جاری رہاتو نہ اخلاق رہے گا اورنہ مسلمان باقی رہیںگے۔ یہ
تاریخ کا اور قدرت کا اصول ہے کہ صرف اچھی چیز ہی باقی رہتی ہے ناقص ختم
ہوجاتی ہے۔
رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی ہمارے تاجرصاحبان نے جو اکثرحاجی ہیں
ذخیرہ اندوزی شروع کردی اوراپنی دکانیں ہی نہیںگودام بھی سامان فروخت سے
بھرلیے۔ جن اشیاء کا ذخیرہ نہیں ہوسکتا مثلاً سبزیاں پھل وغیرہ ان کے نرخ
روزانہ کے حساب سے بڑھائے ۔ میرے ایک دوست کی بیوی کا فون آیا جو بازار سے
ہوکرآئی تھی کہ افطاری میں حسب معمول سب کچھ ملے گا لیکن فروٹ چاٹ نہیں ملے
گی جس کی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگایاجاسکتا ۔ میری بہو نے بتایاکہ آپ لوگ
فروٹ چاٹ کو تبّرکاً ہاتھ لگاسکیں گے اورایک آدھ چمچ ہی لے لیں گے اس سے
زیادہ کچھ نہیں۔ مجھے بیٹی کی فکرہے جس کے دوبیٹے ماشاء اللہ اس سال روزے
شروع کر رہے ہیں کہ ان کا کیاہوگا‘ ان کی غلطی کہ وہ غلط دور میں جوان
ہوئے۔ میں لاہورکے خوشحال لوگوں میں شمارہوتا ہوں جن کا آٹا دانہ گائوں سے
آتاہے اورتنخواہ بھی اتنی ہے کہ روزہ داروں کی کچھ نہ کچھ خاطرتواضع ممکن
ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک عرض کرتاہوں کہ رمضان کے مہینے میں پھل فروٹ
اور دوسری اشیاء کی پیداوارکم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی قدرت کسی تہوارسے
ناراض ہوجاتی ہے۔ بات ساری ہمارے قومی کردار اور حرص وہوس کی ہے جو آخری
حدوں کو چھو رہا ہے ۔ مجھے توڈرلگتاہے کہ کہیں کوئی ایسی خبرنہ آجائے کہ
خریداروں نے منڈی میں سامنے پڑے سامان کو لوٹ لیاہے اور پھریہ سلسلہ چل
نکلے جیسے ان دونوں بینک لوٹنے کا سلسلہ چلاہواہے۔ ہماری تجارتی زندگی میں
زوال کی وہ حدآگئی ہے جب کبھی کسی پرانے دورمیں کسی قوم میں آتی تھی تو اس
پرخداکا عذاب نازل ہوتا تھا۔ کتنی ہی عادوثمود جیسی قوموں کے کھنڈرات ہم آج
دیکھتے ہیں اوران کی نحوست کا اب بھی یہ حال ہے کہ ان کے قریب سے بھاگ
کرگزرتے ہیں۔ پاکستانی قوم میں وہ سب کچھ بلکہ زیادہ موجود ہے جو قوموں پر
عذاب الٰہی کا باعث بنتا تھا مثلاً آپ یہاں کوئی میٹر درست دکھادیں‘ کوئی
ناپ تول کا ترازو درست دکھادیں اور کاروباری عہدوپیماں جوکبھی زبانی کلامی
ہواکرتے تھے اب تحریری صورت میں بھی بے کار ہوگئے ہیں۔کاروباری لوگ ہاتھ
پرکپڑا ڈال کر انگلیوں کے اشروں کے ذریعے کاروباری معاملے طے کرتے تھے تب
بھی یہ مستند ٹھہرتے تھے۔ اب تو ہربات حد سے گزرچکی ہے۔
حکیم سعید شہیدفرمایاکرتے تھے کہ قدرت نے سورہ رحمن میں قوموں اور ملکوں کے
لیے جتنی نعمتوں کا ذکرکیاہے پاکستان میں ان سے دوچارزیادہ ہیں اور انہیں
گنوایابھی کرتے تھے۔ آج حکیم صاحب موجود ہوتے تو انہیں بتاتے کہ قدرت نے
غلط کاراورگنہ گارقوموں کے جتنے گناہ اورعیب گنوائے ہیں پاکستان میں ان سے
چند زیادہ ہی ہیں تو وہ اس سے انکارنہ کرتے بلکہ گھبراکر ان کی تعداد میں
کچھ اضافہ کردیتے۔ ہمارے علماء کو امریکا کے خلاف دفاع پاکستان کے سلسلے
میں ایک محاذ قومی خرابیوں کے خلاف بھی کھولنا چاہیے کیونکہ اس سے ان کی
ساکھ بن سکتی ہے ورنہ امریکا کے مقابلے میں تو ان کو شرمندگی کے سوا کچھ
نہیں ملا۔ لطیفہ ہے ادھرامریکا کے لیے سامان کے قافلے اورٹرک چلتے ہیں اور
ادھر غیرمتعلقہ راستوں پرعلماء کرام کے جلوس جلسے چلتے ہیں۔
اس سال علماء کو ایک اورشکست کا سامنا بھی کرنا پڑا اور وہ تھی رویت ہلال
پورے ملک میں ایک دن ہی قومی اتفاق سے رمضان شروع ہوا۔ خطرہ ہے کہ اتفاق
امت کی یہ کسرعید کے دن پرنکالی جائے گی بہرحال اس بار علماء انتشارمیں
کامیاب نہ ہوسکے۔ کسی نے پوچھا تو عرض کیا کہ معاملات دنیا سے بے دخل علماء
کے پاس اب یہی مذہبی تہوار اورنکاح وطلاق کے معاملات ہی رہ گئے ہیں‘ اس
لیے وہ ان تہواروں کے موقع پر اپنا اقتدار زندہ کرتے ہیں اور عامتہ
المسلمین کو جی بھرکر تنگ کرتے ہیں ایوب خان کے زمانے میں عیدکا جھگڑا ہوا
تو انتظامیہ جیل سے امام مسجد کوپکڑلائی‘ نمازعیدکی امامت کے لیے لیکن پہلا
سجدہ اس قدرطویل ہوگیاکہ کراچی کے ڈی سی او ہمارے مرحوم دوست ایس کے محمود
نے پریشان ہوکر سراٹھایا تو امام غائب تھا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ
علماء نے عیدکے دن پرحکومت سے اتفاق نہ کیا اور متحد رہے ورنہ ان کا اتحاد
ہم نے شاذونادرہی دیکھاہے‘ شکرہے کہ اس بار رمضان المبارک کی آمد پر یہ
اتفاق نظرآیا۔ خدا کرے یہ عیدپربھی قائم رہے اور یہ قوم کسی بات پر تو متفق
دکھائی دے۔ اب تو صرف گرانی پرہی متفق ہے اور بازار عوام سے دور ہوگئے
ہیں۔
No comments:
Post a Comment