…اقبال نے کہا تھا ؎
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
سعادت حسن منٹو نے اقبال کی یہ بات سنی تو معصومیت کے ساتھ سوال اٹھایا کہ
شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں کے اعصاب پر اگر عورت سوار نہ ہوگی تو
کیا بھینس سوار ہوگی؟ اقبال کی عظمت ایسی ہے کہ اس کا ذکر ساری زندگی کیا
جائے تو کم ہے لیکن عورت کے سلسلے میں منٹو نے جو سوال اٹھایا اس میں اقبال
کے تبصرے سے کہیں زیادہ بصیرت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو اقبال کا تبصرہ ایک
’’مہذب آدمی‘‘ کا تبصرہ ہے اور منٹو کا سوال اپنی نہاد میں ایک ’’شریف
آدمی‘‘ کا سوال ہے۔ عجیب بات ہے کہ اقبال تہذیب پر شرافت کی فوقیت کے بڑے
قائل تھے۔ اس لیے انہوں نے کہا ہے ؎
تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
اقبال کے اس شعر میں تہذیب اور شرافت کا تعلق یہ ہے کہ تہذیب کا عروج شرافت
کا زوال ہے اور شرافت کا عروج تہذیب کی موت ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا
ہے؟ غور کیا جائے تو اس شعر میں تہذیب کا مفہوم ’’قوتِ حیات‘‘ کی قلت ہے
اور شرافت کا مفہوم فطرت کے مقاصد کے لیے بروئے کار آنا ہے۔ اس اعتبار سے
دیکھا جائے تو منٹو کا مؤقف یہ ہے کہ شاعروں، مصوروں اور افسانہ نویسوں کا
موضوع اگر عورت ہے تو ایسا کرنے والے دراصل فطرت کے مقاصد کی تکمیل میں
لگے ہوئے ہیں کیونکہ مرد اور عورت کا تعلق زندگی کی اساس ہے اور اس تعلق کی
تعمیر و تشکیل اور اس کا جمالیاتی اظہار پوری انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے۔
اس کے برعکس جو لوگ اس بات پر معترض ہیں کہ شاعروں، مصوروں اور افسانہ
نویسوں کے فن میں عورت کو مرکزیت اور غلبہ کیوں حاصل ہے، وہ لوگ دراصل اپنی
قوت حیات یا تو مکمل طور پر زائل کرچکے ہیں یا ان کی قوت حیات اتنی کم رہ
گئی ہے کہ وہ اب فطرت کے مقاصد کی تکمیل کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اقبال انسانیت کی بقا و سلامتی، فروغ اور اس کے حسن و جمال
کے سلسلے میں عورت کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ انہوں نے صاف کہا ہے ؎
ایک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نے تعلیم نئی ہو کے پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ سمجھا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
اقبال کے ان شعروں میں ’’لہو کے سرد‘‘ ہونے کا مفہوم منفی معنوں میں مہذب
ہو جانا یا قوت حیات سے محروم ہوجانا ہے۔ اس طرح نسوانیت زن کا مطلب محض
عورت کا حسن و جمال نہیں ہے بلکہ اس کا مکمل ’’عورت پن‘‘ ہے۔ اور اقبال کو
اچھی طرح معلوم ہے کہ نسوانیت زن کی حفاظت جدید یا قدیم تعلیم سے نہیں
ہوسکتی بلکہ یہ کام صرف اس چیز سے ممکن ہے جسے عورت کے لیے مرد کی محبت کہا
جاتا ہے اور جو تمام فنون بالخصوص شاعری کا ازلی و ابدی موضوع ہے۔ اقبال
اس حقیقت سے بھی باخبر ہیں کہ جو قومیں ان حقائق کے ادراک سے محروم ہوجاتی
ہیں وہ فنا ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خالی خولی خیال پرستی یا ذہن
پرسی حیاتیات، نفسیات، جمالیات اور انسانی فطرت کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اقبال نے یہ کہا ہی کیوں کہ ہندوستان کے شاعروں،
مصوروں اور افسانہ نویسوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے؟
اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب وٹ مین کا یہ مشہور
فقرہ ہے:
I contradict myself because I am large, I conteined multitudes.
یعنی میں اپنی تردید کرتا ہوں کیوں کہ میں وسیع اور ہمہ جہت ہوں۔ اردو ادب
کے ممتاز نقاد سلیم احمد نے اپنی تصنیف اقبال ایک شاعر میں اقبال کی شخصیت
کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک بنیادی بات یہ کہی ہے کہ اقبال کی شاعری اور ان کے
خطبات میں فکر کا ایک تضاد ملتا ہے۔ مثلاً اقبال شاعری میں دل کی حمایت
کرتے ہیں اور خطبات میں وہ عقل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح شاعری
میں انہوں نے جمہوریت پر تنقید کی ہے مگر خطبات میں انہوں نے جمہوریت کی
حمایت کی ہے۔ اس تضاد کی توجیہہ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری ’’وجدانی علم‘‘ کا
حاصل ہے جبکہ خطبات اقبال کے ’’اکتسابی علم‘‘ کا نتیجہ ہیں اور وجدانی علم
کو اکتسابی علم پر ہزار گنا فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ عورت کے سلسلے میں اقبال
کی متضاد آرا کی ایک زیادہ قرین قیاس توجیہہ یہ ہے کہ عورت کے سلسلے میں
ہمارے مذہبی طبقات پر عیسائیت کے تصورِ عورت اور عیسائی اخلاقیات کا گہرا
اثر ہے۔ عیسائیت کی مشکل اور پیچیدگی یہ ہے کہ وہ جنت میں حضرت آدم ؑ کے
گناہ کا سارا بار اماں حوّا کے اوپر ڈال دیتی ہے چنانچہ عیسائیت میں عورت
شیطان کی ایسی آلہ کار ہے جو حضرت آدم ؑ کو بہکانے اور جنت سے نکلوانے کا
سبب بنیں۔ چنانچہ عیسائیت میں کچھ اور کیا شادی تک کو ایک ایسا غیر روحانی
کام سمجھا گیا ہے جو عیسائیوں کو بقائے انسانی کے لیے مجبوراً کرنا پڑتا
ہے۔ اس کے برعکس قرآن مجید فرقان حمید صاف کہتا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم ؑ
اور اماں دونوں کو بہکایا اور دونوں سے گناہ ہوا اور دونوں نے توبہ کی۔
قرآن مجید کی یہ تعلیم بھی ہم ایک لمحے کے لیے فراموش نہیں کرسکتے کہ اللہ
تعالیٰ نے مخلوقات کو جوڑوں کی صورت میں خلق کیا ہے۔ اس طرح مرد اور عورت
کے تعلق میں فطرت کے عظیم الشان مقاصد بھی پوشیدہ ہیں۔ اس تعلق معنویت اور
جمال کے ہزاروں پہلو بھی مضمر ہیں اور اس تعلق میں پاکی اور پاک بازی ایک
لازوال داستان بھی موجود ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد
مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ میرے لیے دنیا میں صرف تین چیزیں رکھی گئی ہیں،
نماز، عورت اور خوشبو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں نماز
اور عورت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے اور اس سے عورت کے ساتھ مرد کے تعلق کی
معنویت اور تقدس پوری طرح آشکار ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو خواتین ہر
رشتے اور ہر کردار میں آپؐ کی حیات مبارکہ میں مرکزیت کی حامل ہیں۔ آپؐ
زندگی کے کسی لمحے میں اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کو فراموش نہ کرسکے۔
اپنی رضائی ماں حضرت حلیمہ سے آپؐ کا یہ تعلق تھا کہ آپؐ ان کو دیکھ کر
کھڑے ہوجاتے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے۔ حضرت خدیجہ ؓ سے آپؐ کے
تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ آپ انہیں پوری زندگی یاد کرتے رہے اور آپؐ کی
دوسری محبوب شریک حیات حضرت عائشہؓ کو یہ کہنا پڑا کہ مجھے حضرت خدیجہؓ پر
رشک آتا ہے۔ خود حضرت عائشہؓ سے آپؐ کو اتنی محبت تھی کہ حضرت عائشہؓ پانی
کے برتن میں جہاں سے پانی پیتیں آپؐ بھی وہیں سے پانی نوش فرماتے۔ حضرت
فاطمہؓ آپؐ کی بیٹی تھیں اور ان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق
یہ تھا کہ آپؐ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کرتے
اور سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ملنے تشریف لے جاتے۔
لیکن ہمارے ’’تصورِ عورت‘‘ اور جدید ادب میں عورت کی پیشکش کی مختلف صورتوں
پر ان میں سے کسی بات کا اثر نہیں۔ یہ صورت حال ہمیں ایک نہایت سنگین
مسئلے سے دوچار کرتی ہے۔ رشید احمد صدیقی نے اس حوالے سے ایک معرکہ آرا
فقرہ کہہ رکھا ہے انہوں نے کہاکہ جس شخص کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اس کا
تصور خدا بھی پست ہوتا ہے۔ اس فقرے کی وضاحت یہ ہے کہ عورت اللہ تعالیٰ کی
رحمت کی علامت ہے چنانچہ جس شخص کا تصور عورت پست ہوتا ہے اس کا تصور رحمت
پست ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو فارسی اور اردو غزل کی مرکزی روایت نے جس طرح
سمجھا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہماری فارسی اور اردو غزل کی مرکزی روایت
میں عورت پوری کائنات پر چھائی ہوئی حقیقت نظر آتی ہے اور یہ بات ہمارے دین
کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔
ہمارے یہاں مقصدی ادب کا نعرہ تو بہت لگایا جاتا ہے مگر لوگ یہ دیکھنے کے
لیے تیار نہیں ہوتے کہ مقصدی ادب کے نعرے نے دنیا میں سب سے پست ادب تخلیق
کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال روس ہے۔ سوشلسٹ انقلاب روس میں آیا تھا اور
وہاں انقلابی جوش و جذبہ اور انقلاب سے وابستگی سب سے زیادہ تھی۔ لیکن
انقلاب کے بعد روس میں جو ادب پیدا ہوا وہ انقلاب سے پہلے روس میں پیدا
ہونے والے ادب کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔ ہمارے یہاں ترقی پسندوں نے منٹو
پر جنس زدگی کا الزام لگا کر اسے مسترد کردیا لیکن ترقی پسندوں کے ادب کا
بڑا حصہ تیس چالیس سال میں مر گیا ہے اور منٹو زندہ ہے اور طویل عرصے تک
زندہ رہے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نام نہاد مذہبی لوگوں نے بھی ٹھیک طرح
نہیں سمجھا۔ منٹو کے یہاں جنس کوئی تخریبی رجحان نہیں قوتِ حیات ہے اور
منٹو نے اپنے افسانوں میں اس قوت حیات کے مظاہر پیش کیے ہیں اور یہ چیزیں
انسان کی تفہیم کی ایک صورت ہیں۔ بہت سے لوگوں کو منٹو کے یہاں ’’بری
عورتوں کے کرداروں‘‘ کی بھرمار دکھائی دیتی ہے لیکن منٹو نے برے کرداروں کے
ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی فطرت میں خیر اتنی بڑی قوت ہے کہ
انسان بہت بگڑ کر بھی ایک حد سے زیادہ خراب نہیں ہوپاتا اور اس میں ایک
بہتر انسان بننے کی خواہش بار بار سر اٹھاتی ہے اور خواہش سے آرزو اور آرزو
سے تمنا بن جانا چاہتی ہے۔ اس طرح منٹو کی ’’جنس زدہ‘‘ کہلانے والے
افسانوں میں ایک روحانی اور اخلاقی جہت ازخود نمودار ہوجاتی ہے۔ منٹو کی
بدنام زمانہ طوائفوں میں سے اکثر بیویاں اور مائیں بننا چاہتی ہیں مگر
معاشرے نے ان پر طوائف کا لیبل لگا کر ان کے لیے یہ دونوں دروازے ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے بند کیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ اتنی ’’معمولی بات‘‘ ہے کہ اس پر
افسانہ نہ لکھا جائے؟؟
No comments:
Post a Comment