Monday, July 9, 2012

امامت

 الفاظ اور تصورات کثرتِ استعمال سے اپنا مفہوم کھو دیتے ہیں، یعنی ہم لوگ جو لفظ یا تصورکثرت سے استعمال کرتے ہیں اُس کے معنی پر غور نہیں کرتے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’شخصیت‘‘ ہے۔ شخصیت کا لفظ تشخص کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور تشخص انسان کا تعارف ہے، اس کی موجودگی کا نشان ہے۔ لیکن تشخص حقیقی بھی ہوسکتا ہے اور مصنوعی بھی۔ یہ حقیقت انگریزی کے لفظ Personality کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ لفظ Personality، Persona سے بنا ہے، اور Persona اس مصنوعی چہرے کو کہتے ہیں جسے چہرے پر لگاکر اداکار کسی زمانے میں اسٹیج پر اداکاری کیا کرتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شخصیت اپنی نہاد میں مصنوعی یا اوڑھے ہوئے تشخص کو کہتے ہیں جو ہماری ’’اصل‘‘، ہمارے ’’جوہر‘‘، یا ہمارے حقیقی ’’تشخص‘‘ پر غالب آجاتا ہے، یہاں تک کہ شخصیت ہمارے اصل تشخص کو تقریباً فنا کرکے ہمیں ایک ’’مصنوعی انسان‘‘ بنادیتی ہے۔ چنانچہ لفظ شخصیت اور اس کی پشت پر موجود تصور سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، لیکن شخصیت کے حوالے سے ہمارے یہاں ہی نہیں پوری دنیا میں غفلت عام ہے۔ بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ماحول ہمیں شخصیت سے محبت سکھاتا ہے جو اکثر بڑھ کر پرستش میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شخصیت کیسے وجود میں آتی ہے؟ شخصیت ماحول کا حاصل ہوتی ہے۔ ہر شخص کا ایک نام ہوتا ہے۔ ایک خاندان ہوتا ہے۔ ایک زبان ہوتی ہے۔ ایک مذہب ہوتا ہے۔ ایک سماجیات ہوتی ہے۔ ایک معاشیات ہوتی ہے۔ عمل اور ردعمل کے مخصوص سانچے ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں مل کر انسان کی شخصیت بناتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شخصت ’’اپنے آپ‘‘ کا ایک تصور ہے جو انسان کی ابتدائی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ لیکن شخصیت کا ضرر اور اس کی ہولناکی اُس وقت سامنے آنا شروع ہوتی ہے جب شخصیت ایک ’’جبر‘‘ بن جاتی ہے اور انسان اپنی شخصیت کا ’’اسیر‘‘ ہوجاتا ہے۔ مثلاً انسان اپنے ماحول کے زیراثر کافر ہوتا ہے اور وہ شخصیت کے زیراثر ساری زندگی کفر پر کھڑا رہتا ہے۔ ایک شخص شخصیت کے زیراثر شرک پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی مشرک بنا رہتا ہے۔ ایک شخص متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی پوری زندگی متوسط طبقے کی نفسیات کے دائرے میں بسر ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے طبقے کو پسند کرتا ہے اور نچلے اور بالائی طبقات کے لیے وہ منفی جذبات لیے پھرتا رہتا ہے۔ یعنی انسان ماحول کے زیراثر جو شخصیت پیدا کرتا ہے اس سے اسے اتنی محبت ہوجاتی ہے کہ وہ پھر اس شخصیت کو ترک کرکے ’’کچھ اور‘‘ نہیں بن پاتا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے پناہ صلاحیتیں اور امکانات دیے ہوتے ہیں، شخصیت نہ انہیں دریافت ہونے دیتی ہے نہ انہیں نشوونما پانے دیتی ہے۔ اسلام شخصیت کی محبت اور اس کی اسیری کو انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھتا ہے۔ وہ انسان سے کہتا ہے کہ اپنا مصنوعی تشخص ترک کرو اور حقیقی تشخص پیدا کرو تاکہ تم مصنوعی انسان سے حقیقی انسان بن سکو۔ وہ انسان کو تعلیم دیتا ہے کہ تم شخصیت سے ’’ذات‘‘ کی طرف سفر کرو۔ شخصیت اور ذات کا فرق یہ ہے کہ شخصیت وہ ہے جو ہم ’’بن گئے‘‘ ہیں، اور ذات وہ شے ہے جو کہ ہم ’’اصل میں‘‘ ہیں، جو کہ ہم ’’بن سکتے‘‘ ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو شخصیت ’’حاضر و موجود‘‘ کی دنیا ہے، اور ذات بے پناہ ’’امکانات‘‘ کا عالم ہے۔ شخصیت تضادات سے بھرپور حقیقت ہے، اور ذات وہ حقیقت ہے جس میں کوئی تضاد باقی نہیں رہا ہے، اس لیے کہ ذات ایک حقیقی شخصیت ہے اور اس کی نشوونما مذہب کی حقیقی روح کے مطابق ہوئی ہے۔ اسلام انسان کے حقیقی تشخص کی تعمیر اس کی پیدائش کے ساتھ ہی کردیتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اس طرح بچے کے لیے دنیا کا تعارف یہ بن جاتا ہے کہ یہ دنیا خدائے واحد کی دنیا ہے اور ہم سب اسی کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں۔ بڑائی صرف اسی کے لیے ہے۔ محمدؐ اللہ کے رسول اور واحد نمونۂ عمل ہیں۔ نماز سے بہتر عبادت کوئی نہیں۔ اس میں فلاح ہے اور نماز کو صرف ’’پڑھنا‘‘ نہیں ہے بلکہ اسے ’’قائم‘‘ کرنا ہے۔ غور کیا جائے تو اسلام کے تمام عقائد مصنوعی شخصیت کو منہدم کرنے والے ہیں۔ توحید سے کفر اور شرک کی بنیاد پر شخصیت کی نشوونما کا امکان ختم ہوجاتا ہے، آخرت کی محبت سے دنیا کی محبت منہدم ہوجاتی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتے ہی کسی بھی جعلی نمونۂ عمل پر چلنے کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں، نماز انسان کو کسی غیر خدا کی بندگی اور عبادت سے بچا لیتی ہے، روزہ انسان کو جسم کی سطح سے بلند کرکے اسے جسمانیت کے غلبے سے بچا لیتا ہے، زکوٰۃ انسان کو مال کی محبت سے محفوظ کرکے اسے خدا اور انسانوں کی محبت کی طرف مائل کردیتی ہے، جہاد انسان کو بتاتا ہے کہ اصل چیز اپنی جان کی محبت نہیں ہے بلکہ اصل چیز خدا کی محبت ہے اور اس محبت کو ایسا ہونا چاہیے کہ انسان خدا کی راہ میں جان دے رہا ہو اور اسے خیال آرہا ہو کہ جان دے کر بھی خدا کی محبت کا حق ادا نہیں ہوسکا، حج میں انسان عارضی طور پر سہی اپنے محور سے ہٹ جانا ہے، سفر کی ایسی صعوبتیں اٹھاتا ہے جو عام طور پر اس نے پہلے نہیں اٹھائی ہوتیں۔ اکثر مسلمانوں کے لیے حج ایک بڑی مالی قربانی ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں غزوۂ بدر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس معرکے میں حق و باطل کی قوت میں زمین آسمان کا فرق تھا اور غزوۂ بدر صحابۂ کرام کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کی ’’شخصیت‘‘ انسان کو اپنے تحفظ کی تعلیم دیتی ہے، اور غزوۂ بدر میں تحفظ کیا تحفظ کا ’’امکان‘‘ بھی معدوم تھا۔ ایسا یہ دیکھنے کے لیے تھا کہ صحابۂ کرام اپنی شخصیت کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں یا وہ خدا پر کامل بھروسا کرکے خود کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ بعض صحابہ طاقت کا ہولناک عدم توازن دیکھ کر گھبرائے بھی، مگر انہیں اللہ کی مدد کے وعدے سے تسکین فراہم کی گئی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی مدد کا وعدہ اُس وقت تک محض ’’وعدہ‘‘ ہی تھا، حقیقت نہ تھا، اور صحابۂ کرام کو وعدے ہی پر اعتبار کرنا تھا۔ یہ اعتبار شخصیت کی محبت سے نجات حاصل کیے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو غزوۂ بدر خود پرستی کی بہترین تردید اور خدا پرستی کی بہترین مثال ہے۔ یعنی بدر کا ہر شریک اپنے تشخص کو شخصیت کے بجائے ذات کی بنیاد پر استوار کرچکا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ہجرت کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے ہماری تقویم یا کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے۔ داخلی معنوں میں ہجرت نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ کی طرف سفر ہے، اور خارجی معنوں میں ہجرت شخصیت تعمیر کرنے والے تمام عناصر سے اللہ کے لیے دست برداری کا اعلان ہے۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا، اور اگر اس کو اس کے ماحول سے جدا کیا جائے تو اس کی حالت اُس مچھلی کی سی ہوتی ہے جسے پانی سے نکال کر زمین پر رکھ دیا گیا ہو۔ لیکن ہجرت انسان کو اس کی پوری سماجیات اور پوری نفسیات سے اچانک کاٹ دیتی ہے۔ اپنی اصل میں ہجرت بھی مصنوعی شخصیت کو ترک کرنے اور حقیقی تشخص پیدا کرنے کا عمل ہے۔ چنانچہ جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی اس نے مصنوعی شخصیت سے حقیقی شخصیت یا ذات کی طرف ہجرت کی۔ اس نے خود پسندی سے خدا پرستی کی جانب مراجعت کی۔ اس نے موجود سے ممکن کی سمت سفر اختیار کیا۔ لیکن بدقسمتی سے اب ہم اسلام، اس کے عقائد، عبادات، نظام اخلاق اور اسلامی تاریخ کو اس تناظر میں دیکھتے ہی نہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ فی زمانہ شخصیت کے حوالے سے کیا صورت حال پائی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارا زمانہ شخصیت سازی، شخصیت پسندی اور شخصیت پرستی کا زمانہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب ہمارے لیے سماجیات اہم ہے۔ معاشیات اہم ہے۔ شہرت اہم ہے۔ خودنمائی اہم ہے۔ غور کیا جائے تو یہ چیزیں اخلاقی اور نفسیاتی عارضوں کے سوا کچھ نہیں، لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت نے انہیں مطلوب و مقصود بلکہ مثالیہ یعنی Ideal بنا لیا ہے۔ یہاں تک کہ اب لوگوں کو شخصیت اور ذات کا فرق بھی معلوم نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی اور کے لیے کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ’’شخصیت‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضرورت، مجبوری یا عادت کی بات اور ہے ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا، صحابہ کرامؓ بلکہ اکابر صوفیاء کے لیے بھی شخصیت کا لفظ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ یہ تمام ہستیاں شخصیت کی نہیں ذات کی علامت ہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمارے زمانے میں شخصیت کے لفظ، اس کے تصور اور اس کے کلچر کو اہمیت کیوں حاصل ہوگئی ہے؟ اس سوال کا جواب ایک فقرے میں یہ ہے کہ اب ہماری شخصیت مذہب کا حصہ نہیں، بلکہ اب مذہب بھی ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’امامت‘‘ میں کئی خوبصورت باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے ؎ تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے موت کے آئینے میں تجھ کو دکھاکر رخِ دوست زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے فقر کی سان چڑھاکر تجھے تلوار کرے فتنۂ ملتِ بیضہ ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

No comments:

Post a Comment