Saturday, July 14, 2012

جمہوریت

پاکستان میں ایک طرف جمہوریت کی جے جے کار کی جارہی ہے اور دوسری جانب یہ کہہ کرعوام کا دل دہلایا جارہاہے کہ اگر موجودہ جمہوری نظام کو زک پہنچائی گئی تو پھر فوجی بوٹ ملک کو روند دیں گے۔ لیکن اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت کا مطلب ،، عوام کے لیے عوام کی حکمرانی،،ہے تو کیا واقعی ملک میں عوام کی حکمرانی ہے؟ جواب اس سوال کا حقیقت کے آئینہ میں نہایت صاف ہے کہ نہیں۔ حکمرانی عوام کی نہیں بلکہ اشرافیہ کی ہے جو جاگیرداروں ، وڈیروں ، چوہدریوں، سرداروں اور خوانین کے ساتھ گنے چنے سرمایہ دار خاندانوں پر مشتمل ہے اوردراصل یہی عوام کے نام پر ملک پر حکمران ہے۔ ان ادوار میں بھی جب ملک پر فوجی طالع آزماؤں کی حکمرانی تھی ان کا اسی اشرافیہ سے گٹھ جوڑ تھا اور دونوں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ ملک کے پہلے فوجی طالع آزما ایوب خان کی حکمرانی بظاہر فوجی قوت کے بل پر تھی لیکن اس کا سب سے بڑا کھونٹا نواب کالا باغ تھے جو جاگیر دار طبقہ کے مفادات ، اثر و رسوخ اور جاہ و جلال کی مجسم علامت تھے۔ ان کے علاوہ ایوب خان کے اردگرد سندھ کے ،، روشن خیال‘‘ جاگیر دار ذوالفقار علی بھٹو ، سرحد کے خوانین کے سر خیل ڈاکٹر خان صاحب ، مشرقی پاکستان کے نوابین کے نمائندہ خواجہ شہاب الدین اور محمد شعیب تھے جن کا عوام سے قطعی کوئی رابطہ نہیں تھا صرف امریکا کا دست شفقت ان سے پر تھا۔ امریکا کی امداد سے نہال ’’کارکردگی کے دس برس‘‘کے ایوبی دور میں جس کی تعریفوں کے زبردست ڈونگرے برسائے گئے تھے ، عوام سیاسی اور اقتصادی محرومیوں سے گھر کر رہ گئے تھے۔ معیشت کا عالم یہ تھا کہ دس برس کے دوران پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ غربت کے خط سے بھی نیچے آگئے تھے اور اس دوران مزدوروں کی اجرت میں 60فی صد کمی ہو گئی تھی۔ملک کی دو تہائی معیشت پر 22خاندان حاوی ہو گئے تھے۔عوام شہروں میں صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے استحصال کے چنگل میں تھے اور دیہاتوں میں وڈیروں اور زمینداروں کے جبر کا شکار تھے۔ ایوب کے فوجی دور کے مقابلہ میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور عوامی دور تصور کیا جاتا ہے لیکن اس دور میں بھی حکمرانی اشرافیہ اور بیوروکریسی کے ہاتھ میں تھی۔ سوشلزم اور روٹی کپڑا مکان کے چمکدار نعروں کے بل پر بھٹو صاحب نے اپنی عوام دوستی اور روشن خیالی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن عملی طور پر انہوں نے زمین داروں اور وڈیروں کے مفادات پر ملک کی بڑی بڑی صنعتوں کو قربان کردیا۔ان صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اقدام بھٹو صاحب کے دور کا سخت تباہ کن اقدام ثابت ہوا جس کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں اور کاروبار کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں ملک میں قومی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے بھی بند ہو گئے اوربے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ گو بھٹو صاحب کے بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا یہ اقدام عوام کے بہتری اور مفاد کا اقدام قرار دیا گیا تھا لیکن یہ اقدام عمداً جاگیر دار طبقہ کی بالا دستی کے لیے تھا جو پاکستان کی معیشت کے لیے سم قاتل ثابت ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا لہذا اس طبقہ کے مفادات انہیں بہت عزیز تھے لیکن ان کی حکومت کی بھی نظر عنایات مصلحتوں کی خاطر زمینداروں اور وڈیروں پر مرکوز رہیں۔ یہ ان ہی کا دور تھا جب کہ پہلی بار ملک میں تمام زرعی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھااور گزشتہ ادوار میں ملک میں جو زرعی اصلاحات نافذ کی گئی تھیں انہیں اعلیٰ عدالتوں نے غیر اسلامی قرار دے دیاتھا۔ پرویز مشرف کے دور میں انہیں روشن خیال فوجی حکمران ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے سیاسی قوت کے حصول اور اقتدار کی خاطر جوڑ توڑ کے لیے رجعت پسند طاقت ور جاگیر داروں اور زمینداروں کا ہی سہارا لیا اور اراکین پارلیمنٹ کے لیے بی اے کی ڈگری لازمی قرار دے کر عوام کی اکثریت کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کی کوشش کی اس اقدام کو کسی طور بھی عوام کے لیے عوام کی حکمرانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جب تک ملک میں سیاسی جماعتوں کے موجودہ نظام میں انقلابی تبدیلی نہیں لائی جاتی نہ تو سیاست کا عوام سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے اور نہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کر کے اسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ کوئی اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس وقت صرف ایک ،جماعت اسلامی کو چھوڑ کر تمام جماعتیں موروثی جاگیریں بن چکی ہیں۔ قیادت کا فیصلہ جمہوری انتخاب کے بجائے وراثت یا وصیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نتیجہ یہ کہ ان تمام جماعتوں کے کارکن مایوس اور بد ظن ہوتے جارہے ہیں اور عوام ان جماعتوں سے کٹتے جا رہے ہیں۔اس عمل میں قدرتی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت کی آمریت بڑھتی جا رہی ہے۔آئین کی اٹھارویں ترمیم میں اراکین پارلیمنٹ کواپنی جماعت کی پالیسی سے اختلاف کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رکنیت سے برطرف کرنے کے سلسلہ میں قیادت کو تفویض کردہ اختیار کی بدولت سیاسی جماعتوں کی قیادت میں آمریت کے رجحان کو اور زیادہ تقویت حاصل ہوگی اور جمہوری اقدار کو زک پہنچے گی۔ دنیا کے ان ملکوں میں جہاں پارلیمانی جمہوریت ہے ، سیاسی جماعتوں کے جمہوری نظام پربہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عام کارکن زینے طے کر کے قیادت تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر انتخابات میں امیدواروں کے اخراجات کی ذمہ داری سیاسی جماعتیں اپنے سر لیتی ہیں لہذا پارٹی کا ایک غریب کارکن بھی بے دھڑک انتخاب لڑ سکتا ہے اور انتخابات کے اخراجات کے اندیشے اس کی راہ میں حایل نہیں ہوتے۔اس کے برعکس پاکستان میں امید واروں کو اپنے طور پر کڑوڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔لا محالہ انتخاب جیتنے کے بعد رکن پارلیمنٹ اس خرچ کو پورا کرنے کے جتن کرتا ہے اور بلا شبہ یہ اقدام اسے بد عنوانی پر اکساتا ہے۔ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کی بنیاد پر عوام کی حکمرانی کی اس امر سے بھی نفی ہوتی ہے کہ انتخابات میں جیتنے کے بعد پارلیمنٹ کے اراکین کی اکثریت کبھی اپنے حلقوں کا رخ نہیں کرتی اور اپنے حلقوں کے عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ دنیا کی دوسری جمہوریتوں میں نہ صرف کامیاب اراکین پارلیمنٹ اپنے حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ہارے ہوئے امید وار بھی اپنے حلقوں میں عوام سے اسی طرح رابطہ رکھتے ہیں اور ہر ہفتہ ،، سرجری،، لگاتے ہیں جس طرح جیتے ہوئے اراکین پارلیمنٹ۔اسی بنیاد پر ان جمہوریتوں کوعوام کے لیے عوام کی حکمرانی سے تعبیر کیا جاتاہے۔بہت سے لوگوں کو برا لگے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عوام کے لیے عوام کی حکمرانی نہیں بلکہ اشرافیہ کی آمریت ہے اور عوام اشرافیہ کے جبر و استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment