Monday, November 29, 2010

اسکولوں کے کاروبار سے پریشان والدین کی فریاد

 وہ ادارے جہاں پر والدین اپنے دین و دنیا کو صحیح یا غلط کرکے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں ایک بڑی رقم ادا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے حقوق ادا کردیے۔ یہ وہ ادارے ہیں جو کاروباری لحاظ سے پاکستانی معاشرے میں سب سے زیادہ منافع بخش تصور کیے جاتے ہیں مگر انہی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں اس حد تک کم ہوتی ہیں کہ ایک بچے سے حاصل کردہ فیس کی مد میں جو رقم حاصل کی جاتی ہے اس کا بھی 100 فیصد نہیں ہوتی، یعنی یہ وہ ادارے ہیں جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ بچوں کے بستوں میں بے تحاشا مہنگی انگلش زبان کی کتابیں ڈال کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مواد ان کے ذہنوں میں خود بہ خود چلا جائے گا۔ استاد کے نام پر لڑکیوں کو معمولی تنخواہ پر چند مہینوں کے لیے رکھ لیا جاتا ہے جو معمولی تنخواہوں سے فیشن کے کپڑوں اور جوتوں کی خواہش پوری کرتی ہیں اور پھر دو، تین مہینوں میں اسکول سے نکال دی جاتی ہیں اور پھر کسی دوسرے اسکول میں شامل ہوجاتی ہیں، یہ ہیں ہمارے انگلش میڈیم اسکولوں کا معمولی سا خاکہ، جس ملک میں تعلیم کا یہ معیار ہو اس ملک کے مستقبل کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے آج ہمارے یہ مہنگے ترین اسکول کیوں کوئی عبدالقدیر خان نہ پیدا کرسکے، کوئی خالد بن ولید اور محمد بن قاسم نہ پیدا کرسکے۔ یہ شخصیات گورنمنٹ کے پیلے اسکولوں سے پیدا ہوتی ہیں، جن کے والدین نے کبھی بھاری فیس، مہنگی کتابیں اور انگریزی مواد ان کے بستوں میں نہیں بھرا۔ خدارا غور کیجیے اور اپنی سمت کا تعین کریں ،کیا ہم صحیح سمت کی جانب گامزن ہیں۔
(بنت ِجہانگیر)
آپ بھی لکھنے کی کوشش کریں

No comments:

Post a Comment