بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
برائی کی ہولناکی یہ ہے کہ برائی بڑھتے بڑھتے اپنی کشش ثقل پیدا کرلیتی ہے۔ پھر انسان برائی کو ترک کرنا چاہتا ہے، اس کی گرفت سے نکل جانا چاہتا ہے مگر برائی کی کششِ ثقل اُسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ لیکن برائی کی کشش ثقل کا احساس برائی کرتے ہوئے نہیں ہوتا، اس کا انکشاف اُس وقت ہوتا ہے جب انسان برائی کے دائرے سے نکلنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے زمین کی کشش ثقل زمین پر چلتے ہوئے محسوس نہیں ہوتی، اِس کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب انسان زمین سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ برائی کی کشش ثقل کو مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے اپنے معرکہ آراءشعر میں یوں بیان کیا ہے
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ برائی کی کشش ثقل آتی کہاں سے ہے؟
برائی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ برائی پر عمل آسان ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ برائی کی کشش ثقل کا کچھ حصہ برائی کے آسان ہونے سے فراہم ہوتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانو نے اس سلسلے میں ایک مثال دی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ نیکی کا معاملہ پہاڑ پر چڑھنے کی طرح مشکل اور بدی کا معاملہ پہاڑ سے اترنے کی طرح سہل ہے۔ یعنی نیکی کرنے کے لیے آدمی کو کوشش کرنی پڑتی ہے، قوت صرف کرنی پڑتی ہے، لیکن بدی کے لیے کسی کوشش اور قوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسان سہل انگار ہے اور طبعاً آسانی کو پسند کرتا ہے، آسانی کشش ثقل بن جائے تو اس سلسلے میں انسان کی رغبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
برائی کا ایک زاویہ یہ ہے کہ شیطان برائی کو انسان کے لیے خوبصورت بنادیتا ہے۔ یہ خوبصورتی دیکھنے میں بھی ہوسکتی ہے اور سننے میں بھی۔ لیکن برائی کی جمالیاتی قوت اُس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جب برائی ”ذوق“ بن جاتی ہے یعنی اپنا ”ذائقہ“ پیدا کرلیتی ہے۔ لاکھوں لوگ ہیں جن کو معلوم ہے کہ غیبت اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے، لیکن انہیں غیبت میں لطف آتا ہے، ایک لذت محسوس ہوتی ہے، چنانچہ وہ چاہتے ہوئے بھی غیبت کو ترک نہیں کرپاتے۔ یہ لذت کبھی زبان کی سطح پر ہوتی ہے، کبھی بیان کی سطح پر، کبھی جذباتی سطح پر، کبھی نفسیاتی سطح پر۔
برائی بہت عرصے تک جاری رہے تو وہ ”عادت“ بن جاتی ہے۔ عادت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ برائی انسان کے رگ و پے میں سرایت کرکے اس کے روزمرہ کا حصہ بن گئی ہے۔ عادت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان برائی سے پوری طرح مانوس ہوگیا ہے۔ دونوں صورتوں میں برائی برائی نہیں رہتی۔ عادت وجود کا حصہ محسوس ہوتی ہے اور جس چیز سے انسان مانوس ہوجاتا ہے اسے اپنا دوست سمجھنے لگتا ہے۔ ظاہر ہے انسان نہ وجود کے کسی حصے کو برا خیال کرتا ہے نہ دوست میں اسے کوئی خرابی نظر آتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ برائی عادت بن جائے تو پھر انسان ”رغبت“ کے ساتھ برائی کرتا ہے اور رغبت سے بلند ہونا مذاق نہیں۔
برائی کا ایک تناظر یہ ہے کہ برائی انسان کے ماحول کا حصہ ہوتی ہے اور ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ ”فطری“ نظر آتی ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ جو کام اتنے سارے لوگ کررہے ہیں وہ برا کیوں کر ہوسکتا ہے؟ انسان کو لگتا ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ایسی ہی تھی، ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ انسان ماحول کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس کی فکر مزید ایک قدم آگے بڑھتی ہے۔ پھر انسان سوچتا ہے کہ دنیا جیسی ہے اسے ویسا ہی رہنا چاہیے۔ چنانچہ پھر وہ برائی کا دفاع کرنے والا بن جاتا ہے۔ لیکن اسے کسی بھی مرحلے پر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ برائی کا دفاع کررہا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ صرف اس ماحول کا دفاع کررہا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے، جس میں وہ پروان چڑھا ہے اور جو فطری ہے۔ برائی ماحول کا حصہ ہوتی ہے تو اس میں ایک ”برجستگی“ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ایک حاضر جواب انسان کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی اس کی شوخی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ حاضر جواب انسان کے بجائے ”حاضر جواب بچے“ کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے اور حاضر جواب بچے کسے متاثر نہیں کرتے! ان کے سامنے بڑے بڑے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے۔ حاضر جواب بچے میں ذہانت اور معصومیت یکجا ہوجاتے ہیں۔ ذہانت ذہن کو گرفت میں لے لیتی ہے اور معصومیت دل پر قبضہ جما لیتی ہے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ برائی انسان کو آبا و اجداد سے ورثے میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں برائی کی قوت بے پناہ بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس صورت میں برائی ”تاریخ“ بن جاتی ہے۔ انبیاءاور مرسلین سے کافروں اور مشرکوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہی کچھ ان کے آبا و اجداد بھی کیا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ کفر اور شرک بری چیز ہوتے تو ہمارے آبا و اجداد ان میں کیوں ملوث ہوتے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی تاریخ بن کر حق کا معیار بلکہ بجائے خود حق بن جاتی ہے اور اس کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہر برائی ایک ”پستی“ ہے، لیکن یہ پستی اپنے فطری اور تاریخی ہونے کی بنیاد پر دھوکا تخلیق کرتی ہے کہ وہ ”پستی“ نہیں ”گہرائی“ ہے۔ کہنے کو کھائی بھی ایک گڑھا ہے اور کنواں بھی ایک گڑھا ہے، لیکن کھائی میں گر کر آدمی ہلاک ہوجاتا ہے اور کنویں سے پیاس بجھانے والا حیات بخش پانی نکالا جاتا ہے۔ لیکن پستی گہرائی محسوس ہونے لگے تو انسان اس پر فکر و تدبر کرنے لگتا ہے، اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے برائی ”فلسفہ“ بن جاتی ہے۔ یہ فلسفہ اپنے دلائل و براہین گھڑ لیتا ہے۔ اس کی ایک منطق وجود میں آجاتی ہے۔ اس طرح ضلالت اور گمراہی ایک منظم علم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برائی کا انکار کہیں آسانی کا انکار ہے، کہیں ظاہری خوبصورتی کا، کہیں عادت کا، کہیں فطرت کا، کہیں تاریخ کا، کہیں فلسفے کا، اور کہیں بیک وقت ان تمام چیزوں کا۔ اس صورت حال میں بڑے بڑوں کے قدموں کا ڈگمگا جانا سمجھ میں آتا ہے۔ یہاں اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
شاہنواز فاروقی
No comments:
Post a Comment