انسانی عظمت کا راز!
ایک شخص اپنے بچوں کو نصیحت کررہا تھا کہ اڑنے کی کوشش کرو اگر اُڑ نہ سکو تو دوڑنے کی کوشش کرو اگر دوڑ نہیں سکتے تو چلنے کی کوشش کرواگر چل نہیں سکتے تو رینگنے کی کوشش کرو اگر رینگنے کی سکت نہیں رکھتے تو لڑھکنے کی ہمت پیدا کرو اور اس وقت تک لڑھکتے رہو جب تک منزل تک نہیں پہنچ جاتے۔
بڑے بیٹے نے کہا ”یہ ٹھیک ہے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے مگر اس جدوجہد اور جستجو میں اہم بات یہ ہے کہ جانا کہاں ہے؟ تاکہ منزل کا تعین ہوسکے۔“
چھوٹے بیٹے نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور کہا۔ پاگلا! جہاں قانون نہ وہ آدمی اتنا خود مختار ہو کہ عدالتیں اس کے سامنے سرنگوں رہیں اور وہ منزل ہماری پارلیمنٹ ہے جہاں موجاں ہی موجاں ہیں۔ رکن اسمبلی بننے کے لیے آدمی یہ سارے پاپڑ بیلتا ہے کبھی اڑتا ہے کبھی دوڑتا ہے کبھی رینگتا ہے کبھی لڑھکتا ہے اور جب اپنی منزل پالیتا ہے تو قانون سے بالاتر ہوجاتا ہے۔ عدالتوں کو خانہ زاد سمجھنے لگتا ہے جسٹس صاحبان کو ذاتی ملازم کہتا ہے۔ بہ ظاہر یہ مکالمہ لطیفہ لگتا ہے مگر حقیقت یہی ہے۔
رکن اسمبلی بننے کے لیے خانہ زاد بننے والوں کی کمی نہیں۔ جعل سازی ‘ دھوکا ‘ غلط بیانی اور ایسے ہی دیگر حربوں کے ذریعے رکن اسمبلی بننے والوں کو بھی سبھی جانتے ہیں اس کے باوجود وہ قابل اخترام اور باعث تقلید ہیں‘ محترم اور معزز سمجھے جاتے ہیں عدالتیں ان کے سامنے بے بس ہیں مگر جب کوئی عام آدمی ایسے کسی فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو حساس اداروں کی ساری حسیں بیدار ہوجاتی ہیں اور قانون ایک توبہ شکن انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پولیس میں بھرتی ہورہی تھی ایک غریب نوجوان برسرروزگار ہوکر اپنے خاندان کی کفالت کرنا چاہتا تھا‘ اس کا قدذرا سا کم تھا کسی نے مشورہ دیا کہ وگ لگا کر قد کی پیمائش کرانا۔ اس نے ایسا ہی کیا مگر پیمائش کے دوران بھانڈا پھوٹ گیا۔ قانون کے کان کھڑے ہوگئے۔ حساس اداروں کے اہلکار چونک پڑے۔ نوجوان کو فوراً حراست میں لے لیا گیا۔ ان دنوں وہ جیل میں سرکاری مہمان ہے۔عام آدمی رزاق حلال کی خاطر تھوڑی سی ہیراپھیری کرلے تو اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے اور جب کوئی بااثر اور بااختیار شخص ایسے کسی فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو درگزر کیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ حضرت عمر کے زمانے میں قحط پڑا تھا تو آپ نے چوری کی سزا معطل کردی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنا جمہوریت کے خلاف سمجھتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ جمہوریت اسلامی نظام کے بہت قریب ہے۔ تو پھر۔ اسلامی نظام کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ حکمران طبقہ حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنا نہیں چاہتا اس کی نظر میں یہ خسارے کا سودا ہے کوئی بھی تاجر خسارے کا سودا نہیں کرتا جب تک سیاست اور تجارت الگ الگ نہیں ہوتی‘ عام آدمی کی حالت نہیں سدھر سکتی۔ سیاست دان سیاست کار بن جائیں تو سیاست صنعت بن جاتی ہے۔ گاندھی جی نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں باعزت اور باوقار رہنے کے لیے حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنابہت ضروری ہے اور یہ وضاحت بھی کی تھی کہ وہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ کی طرز حکمرانی کو باعث تقلیدقرار دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ انسان کی عظمت کا راز یہی ہے کہ ہر اچھے عمل کی تقلید کی جائے جو قومیں اچھائی اپنانے کو اپنا شعار بنالیتی ہیں اقوام عالم میں سرفرازاور سربلند رہتی ہیں۔
ناصر حسنی
No comments:
Post a Comment