عبدالرحمن بجنوری نے کہا ہے کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ وید اور دیوان غالب۔ یہ غالب کی تعریف میں مبالغے کی انتہا ہے۔ وید کی الہامی سطح کا غالب کی الہامی سطح سے کوئی مقابلہ ہی ممکن نہیں۔ لیکن غالب کی شخصیت اور شاعری میں کمال کا پہلو بے پناہ ہے۔ پہ پہلو کالی داس گپتا رصنا کی تازہ ترین تحقیق سے اور نمایاں ہوا ہے۔ کالی داس گپتا رصنا نے غالب کے دیوان کو پہلی بار سال کے اعتبار سے تربیت دیا ہے۔ کال دس گپتا کا مرتب کردہ دیوان غالب پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ غالب نے کون سی غزل کس سال میں کہی ہے۔ تاہم کالی دس گپتا رصنا کی تحقیق سے غالب کے کمال کا جو پہلو نمایاں ہوا ہے وہ یہ ہے کہ غالب اپنی عظےم شاعری کاتقریباً70 فیصد حصہ اس وقت تک کہہ چکے تھے جب ان کی عمر محض 24 سال تھی۔
غالب کا زمانہ زبان دانی کا زمانہ تھا۔ شاعری کا شوق اور ذوق عام تھا۔ خواص ہی نہیں عوام بھی شاعری کے عاشق تھے لیکن اس کے باوجود 24 سال میں دیوان غالب کی لغت اور اسلوب پیدا کرکے دکھانا حیرت انگیز ہے۔ لیکن دیوان غالب میں صرف زبان اور بیان کی سطح ہی بلند نہیں ہے۔ اس فکر اور تجربے کی سطح بھی بلند ہے۔ اتنی بلند کے اس کے لیے کئی سو سال کی عمر بھی ناکافی معلوم ہوتی ہے لیکن غالب نے صرف 24 سال میں صدیوں کو عبور کرلیا تاہم یہ صرف غالب کا معاملہ نہیں۔
جان کیٹس انگریزی کے چار عظیم رومانوی شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس نے 24 سال میں شاعری شروع کی اور 27 سال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ کیٹس اور ورڈز ورتھ کا زمانہ ایک تھا۔ورڈز ورتھ اس وقت پختہ عمر کا عظیم شاعر تھا لیکن کیٹس کی نوعمری کے باوجود اس کی شاعری نے ورڈزورتھ کو چونکا دیا اور اس نے کیٹس کو اپنے یہاں آکر رہنے کو کہا مگر کیٹس نے انکار کردیا۔ کیٹس کو خود اپنی عظمت کا احساس تھا۔ اس نے بڑے جذب و مستی کے عالم میں اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ میرا نام ایک روز شیکسپیئر کے ساتھ لیا جائے گا۔ شیکسپیئر انگریزی ادب کا بلند ترین نکتہ ہے۔ اس تک پہنچنا محال ہے مگر جان کیٹس 24 سے 27 سال کی عمر کے دوران خو دکو شیکسپیئر کے ساتھ کھڑا دیکھ رہا تھا۔ کیٹس کی شاعری کیفیت کے اعتبار سے تو عظیم ہے ہی مگر اس کے دیوان کی ضخامت بھی کم نہیں۔اس کی کلیات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اس نے 24 سے 27 سال کی عمر تک شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہوگا۔ غالب کی طرح کیٹس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کے یہاں صرف زبان و بیان کی سطح ہی بلند نہیں خیال اور تجربے کی سطح بھی بلند ہے۔ اس خیال اور تجربے میں علم ہے۔ تاریخ ہے ۔ کلچر کا شعور ہے۔ آخر 27 سال کی عمر میں کیٹس نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا؟
ہندوﺅں کی دیومالا کے ایک کردار ابھی منیّو کی مثال اس لیے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ ابھی منیّو ارجن کا بیٹا تھا اور اسے ایک روز میدان جنگ میں ایک ایسے طریقہ ¿ جنگ کا سامنا ہوا جسے اصطلاح میں چکرویو کہا جاتا تھا۔ اس طریقہ ¿ جنگ میں دشمن میدان جنگ میں اپنی فوجوں کو دائرہ وار ترتیب دیتا تھا اور حریف کے لیے دائروں کو توڑنا مشکل ہوتا تھااور اگر کوئی دائروں کو توڑ کردشمنوں کی صفوں کو الٹ بھی دیتا تھا تو اس کے لیے واپسی تقریباً ناممکن ہوتی تھی۔ ابھی منیّو کے سامنے چکرویو آیا تو اسے یاد آیا کہ اسے چکرویو کو توڑنے کا طریقہ معلوم ہے۔ اور اسے یہ طریقہ اس وقت معلوم ہوا تھا جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا اور اس کے باپ ارجن نے اس کی ماں کو چکر ویو توڑنے کا طریقہ بتایا تھا۔ ماں کے پیٹ میں حاصل ہونے والے علم کی بنیاد پر ابھی منیّو نے چکرویو کو چیلنج کیا اور اسے توڑ دیا۔ لیکن جب ابھی منیّو نے چکرویو توڑ دیا تو اسے یاد آیا کہ اس چکرویو سے باہر نکلنے کا طریقہ معلوم نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کا باپ اس کی ماں کو چکرویو سے باہر آنے کا طریقہ بتارہا تھا تو اس کی ماں کو نیند آگئی۔ چنانچہ ابھی منیّو چکرویو سے نہ نکل سکا اور مارا گیا۔ ابھی منیّو نے جس وقت چکر ویو توڑا اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔
انسانی تاریخ حیرت انگیز ذہانت کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ مثالیں جہاں ایک جانب انسان کی عظمت کو نمایاں کرتی ہیں وہیں دوسری جانب ان سے انسان اور الہام کے رشتے کا بھی اظہار ہوتا ہے جس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔ خود غالب نے کہا ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
یعنی میرے پاس جو کچھ ہے غیب کی عطا ہے میرے قلم کے چلنے کی آواز دراصل فرشتوں کے پروں کی آواز ہے۔
Ap ka muntkahb karda mzameen buhat achan
ReplyDelete