Wednesday, December 1, 2010

چیونٹی اور ہاتھی

کامیابی عجیب چیز ہے چیونٹی کو مل جائے تو اسے ہاتھی بنادیتی ہے مگر ناکامی بھی کم اہم نہیں ہاتھی کو مل جائے تو اسے چیونٹی بنتے دیرنہیں لگتی۔
یہ کل ہی کی بات ہے کہ افغانستان دنیا کا کمزورترین ملک تھا اور طالبان کی حکومت دنیا کی کمزورترین حکومت مگر آج طالبان افغانستان میں سپرپاوربنے کھڑے ہیں۔ اس کے برعکس جب امریکا افغانستان میں داخل ہورہاتھا تو وہ ”سپرپاور“ تھا لیکن اب اس کے پاس افغانستان میں یہ دونوں ”تعیشات“ نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈرجنرل مک کرسٹل نے اپنی حکومت سے اضافی 20 ہزار فوجی طلب کیے ہیں اور خبردارکیاہے کہ اگرانہیں یہ فوجی کمک نہ دی گئی تو افغانستان میں امریکا کی آٹھ سالہ جدوجہد ناکامی سے دوچارہوسکتی ہے۔
اس تناظرمیں دیکھاجائے تو افغانستان نے امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت کو تقسیم کردیا ہے۔ امریکا کی فوجی قیادت افغانستان میں اضافی فوجی دستے تعینات کرنا چاہتی ہے۔ لیکن امریکا کے نائب صدر جو بائیڈن ایک اور منصوبہ لیے بیٹھے ہیں۔ 
انہوں نے امریکا کے صدربارک اوباما کو تین نکاتی حکمت عملی پیش کی ہے۔ اس حکمت عملی کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لینے کی ضرورت ہے۔ اس خیال کی وجہ امریکا کا ایک تاریخی تجربہ ہے۔ اس تجربے کو ویت نام کہاجاتاہے۔ امریکا نے ویت نام کے خلاف جارحیت کی تھی تو امریکا ویت نام میں پھنسا ہوانہیں تھا۔ وہ ویت نام میں محدود کارروائی کرکے وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا لیکن ویت نام نے امریکا کو پھنسالیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ویت نام امریکا کے لیے دلدل بن گیا۔ خودسوویت یونین کا بھی افغانستان میں یہی حال ہواتھا۔ چنانچہ اس وقت امریکی قیادت کا ایک حصہ محسوس کررہاہے کہ چین اور روس سمیت دنیا کی کئی طاقتوں کا مفاد یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے نہ پائے۔ افغانستان میں جنگ جاری رہے۔ اور امریکا کے مالی اور انسانی وسائل اس جنگ میں استعمال ہوتے رہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہے۔
جوبائیڈن کے منصوبے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکا کو افغانستان سے فوجیں نکال کر پاکستان میں ڈرون حملوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور انہیں زیادہ سے زیادہ موثر بناناچاہیے۔ ان کی حکمت عملی کا تیسرا نکتہ پاکستان کا اندرسے گھیراﺅہے۔ 
اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر افغانستان کے بارے میں امریکا کی سیاسی قیادت کو بالادستی حاصل ہوئی تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہونے والاہے۔ مگر اس کی ذمہ دار خود ہماری قیادت ہے جس نے پاکستان کو امریکا کے لیے چراگاہ بنادیاہے۔ صرف چراگاہ نہیں سستی چراگاہ۔ امریکی یونہی تو نہیں کہتے کہ ہمیں جس کام کے لیے پاکستان میں صرف ایک ڈالر خرچ کرنا پڑتاہے اس کے لیے افغانستان میں کم ازکم 30 ڈالر صرف کرنے پڑتے ہیں۔
بڑی طاقتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں چونکہ اورچنانچے کی عادی نہیں ہوتیں لیکن امریکی افغانستان میں اپنی ناکامی کو دیکھتے ہیں۔ اور اس کی توجیہات تلاش کرتے ہیں۔
ایک وقت تھاکہ وہ کہاکرتے تھے کہ بغاوت صرف ”جنوب“ میں ہے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کا 80 فیصد امریکا اور اس کے اتحادیوںکے قبضے میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کو وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی ایک وجہ پاکستان ہے جہاں سے طالبان کو مسلسل مددمل رہی ہے۔ اس مدد کا ایک جواز امریکی یہ بیان کرنے لگے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ بہت بڑھ گیاہے اور پاکستان اس کے ردعمل میں امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کررہا۔
ایک وقت تھا کہ امریکی حامدکرزئی کو”مسئلے کاحل“ سمجھتے تھے مگر وہ بھی اب انہیں ”مسئلے کاحصہ“ نظرآنے لگے ہیں اور امریکیوں نے کہنا شروع کردیاہے کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ حامدکرزئی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔ جنرل کرسٹل نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں ایران پہ الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں اس کا کردار مشتبہ ہے۔ ایک جانب وہ کرزئی حکومت کی حمایت کررہاہے اور دوسری جانب طالبان کے بعض گروہوں سے اس کے رابطے ہیں اور وہ انہیں مدد دے رہاہے۔
غرض یہ کہ امریکی اپنی ناکامی کی وجوہ کو دومقامات کے سوا ہرجگہ تلاش کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک مقام خود امریکا ہے اور دوسرا مقام افغانستان کی تاریخ امریکاافغانستان میں اپنی ناکامی کا خود ذمہ دارہے۔ امریکا کو اپنی ناکامی کا دوسرا سبب جاننے سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اسے ایک بارپھر افغانستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ افغانستان میں سکندر آیا اور ناکام ہوا۔ انگریز آئے اورناکام ہوئے۔ سوویت یونین آیا اور ناکام ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جہاں سب ناکام ہوئے وہاں امریکا کیسے کامیاب ہوتا۔ افغانستان جارح طاقتوں کے لیے تاریخ کا مثلث برموداہے۔ یہاں جارح جس شان سے آتے ہیں اس شان سے واپس نہیں جاتے۔ اور سوویت یونین تو لوٹ بھی نہیں سکا۔ بہرحال اب افغانستان میں امریکا کے حوالے سے دیکھنے کی اصل چیز یہ ہے کہ امریکا اپنی مزید فوج لاتاہے یا اپنی فوج افغانستان سے نکالتاہے۔
وقت اورتاریخ نے بارہا ثابت کیاہے کہ وقت اور تاریخ ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے ۔ بہادری زندگی کے امکانات کو تلاش کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کے برعکس بزدلی آتش کدہ کوبھی منجمدبرف بنادیتی ہے۔ افغانستان میں چیونٹی یونہی ہاتھی نہیں بن گئی اور ہاتھی وہاں یونہی چیونٹی نظرنہیں آرہا۔
شکریہ/جسارت

No comments:

Post a Comment