پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ صرف تھر میں پا ئے جانے والے کوئلے کے ذخائر کی مالیت سعودی عرب سے نکلنے والے تیل کی مالیت سے زیادہ ہے ۔ وہ کون سی معدنیات ہیں ، وہ کون سی فصلیں ہیں ، وہ کون سے پھل ہیں جو پا کستان میں ناپید ہوں ، وہ کون سی نعمت ہے جو خدا نے پاکستان کو عطا نہ کی ہو ۔ ساری دنیا سے ملنے والی یورینیم کی مقدار کا بیس سے پچیس فیصد حصہ پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ خوبصورتی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کا کوئی ثانی نہیں ۔ دنیا کے تین طویل پہاڑی سلسلوں کا مرکز پاکستان میں ہے ۔ دنیا کی تیرہ بلند ترین چوٹیوں میں آٹھ چوٹیاں پاکستان کا دلکش حصہ ہیں ۔ بہترین آبی نظام موجود ہے ، قدرتی بندرگاہ اور سمندر کا طویل ساحل پاکستان کا حصہ ہے ۔ محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا اہم ترین ملک ہے ۔
اگر ہم پاکستان کی سرزمین میں پائی جانے والی نعمتوں کا درست استعمال کریں تو یقین جانیے کہ پاکستان دنیا کی خوشحال ترین مملکت بن سکتا ہے اور اگر سیاحت کے شعبے میں ترقی کی جائے تو سالانہ پانچ سے دس لاکھ سیاح پاکستان کے زرمبادلہ اور تجارت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ عوام پاکستان کی بدحالی کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں لیکن یہاں دو اسباب کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اگر ان کا سدباب کرلیا جائے تو ہم کافی حد تک اپنی پریشانیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ( اس کے لیے عوام پاکستان کا باہم متحد ہونا ضروری ہے۔
پہلا سبب وڈیرہ شاہی اور وی آئی پی کلچر ہے ، سندھ کے وڈیرے ، پنجاب کے چودھری ، بلوچستان کے سردار اور سرحد کے خوانین عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، یہ کرپٹ ترین لوگ اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ سمیت عدالتوں پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوتی ہے ۔ یہ اپنے علاقوں میں انڈسٹریاں قائم ہونے نہیں دیتے ، یہ لوگ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر غیر فعال بنائے رکھتے ہیں ۔ ڈاکوﺅں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں ، بھاری قرضے لے کر معاف کرالیتے ہیں، ہر طرح کی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں ، الیکشن کے وقت اپنی دولت اور طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور ہر بار عوام کو اپنے جھوٹے دعوﺅں اور کبھی پورے نہ ہونے والے وعدوں سے بے وقوف بناتے ہیں ۔ یہ تمام سلسلے قیام پاکستان سے جوں کے توں جاری ہیں ۔ یہاں ایک چھوٹی سے مثال دینا چاہوں گا جب ایوب خان کے دور میں اسٹیل مل کی تعمیر کے لیے جگہ کا تعین کیا تو اس دور کے ” نواب صاحب“ نے اس کی بھر پور مخالفت کی ، حالانکہ اسٹیل مل میں استعمال ہونے والی تمام بنیادی معدنیات کے ذخائر بلوچستان میں موجود ہیں ۔ لیکن ان نواب صاحب نے صرف اس لیے اسٹیل مل کو بلوچستان میں تعمیر نہیں ہونے دیا کہ اس طرح تو یہاں کے عوام باشعور ہوجائےں گے اور پھر ان صاحب کو نواب کون کہتا ۔ بالآخر ہر طرح کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اسٹیل مل کراچی شہر میں قائم کی گئی اور اسٹیل مل کے مسلسل خسارے میں رہنے کی وجہ بھی ایک ہی ہے کہ یہاں استعمال ہونے والی معدنیات اور ایندھن کے لیے کوئلے کی یہاں تک رسائی میں بھاری لاگت پیش آتی ہے ۔
دیگر شہروں کی بہ نسبت کراچی کے90 فیصد علاقے میں کم از کم وڈیرہ شاہی ناپید ہے ، لیکن یہاں دوسری طرح کے مسائل کراچی کے عوام کی پریشانیوں کا سبب ہیں ۔ ٹیکسز کی شرح میں دیگر شہروں کی نسبت زیادتی ، بجلی کے بے انتہا اضافی بل اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کراچی کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کی وجوہات ہیں ۔ کراچی کے دس فیصد علاقے میں ( جن میں ہمارا لیاری کا علاقہ بھی شامل ہے ) صاف طور پر وڈیرہ شاہی اور ڈاکو راج کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ لیاری کا علاقہ دیگر کراچی کے علاقے کی نسبت پسماندگی کا شکار ہے ۔
عوام پاکستان کی بدحالی کا دوسرا بڑا سبب ہر حکومت میں دیکھنے ، سوچنے اور کچھ کرنے کی صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔ ہمارے فرماں روا آسان مسائل کو مشکل بنا دیتے ہیں اور مشکل ترین اور پیچیدہ مسائل کو آسانی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ اگر مشکلات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور پیچیدہ مسائل کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال ججز
باقی صفحہ نمبر6 پر
کی بحالی ہے۔
تھرکول کے ذریعے توانائی حاصل کرکے ہم سستی ترین بجلی پیداکرسکتے ہیں اورلوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پایاجاسکتاہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ اتنے آسان معاملے کو اتنا پیچیدہ بنادیاگیاہے کہ 12 سال گزرنے کے باوجود اس معاملے پرکوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ (ساتھ ہی ڈیم بنائے جانے کا مسئلہ ہے اگر اس معاملے کو بھی پیچیدہ ہی بناکر چھوڑدیا گیا تومستقبل میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ ساتھ ہی کھارے پانی کو میٹھاکرنے کے لیے پلانٹ لگائے جانے کی اشد ضرورت ہے)۔
موجودہ اہم ترین مسائل میں بلوچستان اورفاٹا کا مسئلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکاہے صرف فوجی آپریشن کو میں ان مسائل کاحل نہیں سمجھتا۔ بلوچستان کے مسائل کی باریکیوں اور پیچیدگیوں پر غور و فکر کرکے ان کا حل نکالا جاسکتا ہے ۔ دوسری جانب فاٹا اور سوات میں جاری آپریشن کے سبب انتہا پسندپورے پاکستان میں پھیل سکتے ہیں جس کی تازہ مثال لاہورمیں ریسکیو15 کی عمارت پرخودکش حملہ ہے۔ فوج اور سول اداروں کے عہدیداروں کو ہرحال میں عسکریت پسندوں کو ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچنے سے روکنا ہوگا۔(یہاں ایک اورمعاملے پربھی نظررکھنا ہوگی کہ اس نازک موڑ پر”را“ اور ”موساد“ کے کتے بھی اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں کرسکتے ہیں۔)
مجھے امیدہے کہ کبھی تو ایسے لوگ حکومت کا حصہ بنیں گے جو سیاسی بصیرت‘ مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت اور تمام معاملات کی پیچیدگیوں پر نظررکھتے ہوئے تمام مسائل کا مناسب اور سنجیدہ حل تلاش کریںگے۔ اور عوام پاکستان کو ان دوفیصد مراعات یافتہ وڈیروں سے نجات دلائیں گے۔ (ان شاءاللہ)
وسیم کھتری
No comments:
Post a Comment