Saturday, December 25, 2010

بلاسودبینک کاری کے خلاف مقدمہ

بلاسود بینک کاری سے متعلق کیرلا ہائی کورٹ میں جو مقدمہ زیر سماعت ہے اس میں 11 نومبر کو ریزرو بینک آف انڈیا نے حلف نامہ داخل کرکے بتا دیا کہ اس نے کسی کمپنی کو شرعی اصولوں کے مطابق بینک کاری کی منظوری نہیں دی ہے۔ یہ مقدمہ جنتا پارٹی کے صدر سبرامنیم سوامی نے دائر کر رکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ ”یہ ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں سرکاری طور پر یا سرکار کی مدد سے کسی خاص مذہب کے اصولوں کے مطابق نظام معیشت قائم کرنا سیکولرزم اور آئین کے مغائر ہے۔ اگر حکومت کسی ایسی کمپنی میں حصے دار بنتی ہے جو کسی خاص مذہب کے مطابق اپنے امور چلا رہی ہو تو اسے سرکار کی جانب سے اس مذہب کی طرفداری سمجھا جائے گا“۔ ڈاکٹر سوامی کے مطابق ”سیکولرزم ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے جیسا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے بومائی مقدمے میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے علاوہ آئین کی دفعہ 27 بھی مملکت کو اسلامک بینکنگ جیسے کاموں میں حصہ لینے سے روکتی ہے“۔ (دی ہندو 12 نومبر)۔ واضح رہے کہ بلاسودی معیشت کے قیام کی مساعی کرنے والے کچھ گروپوں کی کوششوں سے کیرلا اسٹیٹ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے البرکہ فائیننشل سروس لمیٹڈ کا آغاز کیا تھا۔
یہاں اس وقت کیرلا میں اسلامی بینک کاری کا معاملہ زیر گفتگو نہیں ہے، کیرلا سرکار کے اقدام کے خلاف سبرامنیم سوامی کا مقدمہ بھی زیر بحث نہیں ہے کہ اس طرح کے مقدمات ہوتے رہتے ہیں، یہ کوئی نرالی بات نہیں ہے۔ دلچسپ مگر غور طلب صرف وہ دلیل ہے جو ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اپنی اپیل کے حق میں دی ہے، یعنی سیکولرزم“۔ ان کے نزدیک کیرلا حکومت کا یہ اقدام آئینی سیکولرزم کے منافی ہے۔ اس سے انکشاف ہوا کہ سوامی کو سیکورلزم بہت عزیز ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی سرکاری قدم سے اس پر آنچ آئے، لیکن یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس سے پہلے سیکولرزم کی قدروں کو پامال کرنے والے سرکاری اقدامات اور سرکاری شخصیات کے عمل کے خلاف انہوں نے ملک کی کون کون سی عدالتوں میںمقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ یہاں سرکاری عمارتوں کا سنگ بنیاد بھومی پوجن کے بعد رکھنا اور سرکاری تقاریب کا ادگھاٹن ایک خاص دھرم کی رسوم کے ساتھ کرنا عام بات ہے۔ اس میں جونیئر منسٹر سے لے پرائم منسٹر اور پرائم منسٹر سے لے کر صدر جمہوریہ تک شریک ہوتے ہیں، کیا سوامی نے اس کا نوٹس بھی کبھی لیا ہے۔ یہاں ویدک ارتھ و یوستھا کی باتیں بھی سرکاری لوگ کرتے ہیں، وہ کون سا سرکاری عمل ہے جس پر ایک خاص دھرم کی چھاپ نہیں ہے۔
لیکن سوامی سے اس انصاف کی امید آج کی تاریخ میں نہیں کی جاسکتی، کل کو بدل جائیں تو اور بات ہے یہ ڈاکٹر سوامی ہندوستانی سیاست کی عجیب و غریب چیز ہیں۔ بہت پہلے جن سنگھ میں تھے جنتا پارٹی بنی تو 
باقی صفحہ 7 بقیہ نمبر 1
اس میں شامل ہو گئے۔ پھر بی جے پی سے جھگڑا ہوا تو اس کے جانی دشمن بن گئے اور آر ایس ایس کے خلاف باقاعدہ مہم چھیڑ دی، بی جے پی کو اتنی گالیاں دیں کہ مغربی یوپی کے کلیان سنگھ نے اپنے 2 ادوار میں اس کی آدھی بھی نہیں دی ہوں گی۔ سوامی پر انصاف اور سیکولرزم کا یہ دورہ طویل عرصے تک رہا جس کے دوران انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کی بات کی، میرٹھ میں ہاشم پورہ کے قتل عام کا معاملہ بہت بڑے پیمانے پر اٹھایا، پاکستان کے ساتھ دوستی کی وکالت کی، ایک وقت آیا کہ مدراس کی جے للتا کی دشمنی پر اتر آئے، پھر جلد ہی جاں نثار دوست بن گئے، اب گزشتہ چند برسوں سے ان پر ہندتو کا دورہ پڑا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں چین اور اسرائیل دونوں کے مفادات کے نگراں ہیں۔ اب ایسے شخص کے مقدمے سے عدالت کے اندر اور باہر کیسے نمٹا جائے، اس پر غور کرنے کے لیے اسلامک بینکنگ کے طرفداروں کو کچھ زیادہ وقت نکالنا ہوگا۔
 (دعوت، دہلی) 

1 comment: