Thursday, January 6, 2011

سلمان تاثیر کا۔ قتل دلیل اور ایمان

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے ایک عام سے گارڈ نے سرعام قتل کردیا۔ اس نے قتل کے بعد اعتراف کیا کہ سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب تھے اس لیے قتل کیا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کو بجلی کا جھٹکا لگ گیا اور سب تیزی کے ساتھ ایک نکتے پر متحرک ہوگئے کہ یہ کوئی طریقہ نہیں دلیل سے بات کی جانی چاہیے تھی۔ ایک بار پھر پاکستانی قوم کا رخ ایک طرف اور حکمرانوں اور میڈیا کا دوسری طرف ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سلمان تاثیر کا جرم کیا تھا اس نے تو ایک رائے دی تھی اس رائے پر دلیل سے بات کی جانی چاہیے تھی یہ کیا کہ اٹھا کر آدمی کو قتل کردیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ڈرون حملوں‘ امریکی ‘ بھارتی مظالم اور یہودیوں کے مظالم پر دلیل کا سوال نہ اٹھایا جائے جو لوگ دلیل کی بات کرتے ہیں آئیں وہ دلیل کے میدان میں ہی بات کریں۔ دلیل کی موت تو اس وقت ہوگئی تھی جب آسیہ مسیح کو عدالت سے سزا کے بعد اعلیٰ عدالت میں جانے‘ قانون میں اصلاح (اگر کوئی سقم ہے تو) یا جوابی مقدمہ قائم کرنے کے بجائے ‘ گورنر پنجاب نے براہ راست فیصلہ سنادیا کہ یہ کالا قانون ہے‘ میں صدرمملکت سے آسیہ کی سزا معاف کرنے کی اپیل کرنے جارہا ہوں۔ کیوں۔ عدالت میں جاکر دلیل کیوں نہیں دی گئی۔ پارلیمنٹ میں دلیل کیوں نہیں لائی گئی میڈیا پر یکطرفہ دلائل کی بھرمار کیوں ہے۔ 
یہ محض سلمان تاثیر کا معاملہ نہیں ہے اور بھی بہت سے لوگوں نے اسے کالا قانون قرار دیا ہے۔ وہ لوگ بھی بات کرنے سے قبل فیصلہ سنانے سے قبل اپنی زبان سنبھال لیا کریں۔ ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دینے کے بجائے کوئی دلیل لاتے۔ وہ کیسے یہ فیصلہ سنارہے ہیں کہ یہ ظلم ہے۔
سلمان تاثیر کے قتل کا سبب بننے والا واقعہ 2 جون 2009 ءکا ہے۔ جب ننکانہ صاحب میں اسٹاپ والی کے مقام پر آسیہ نے فالسے کے باغ میں پھل اتارنے کی مزدوری کے دوران دو خواتین عافیہ اور عاصمہ کے گلاس میں پانی پی لیا اس پر دونوں خواتین نے اس گلاس میں پانی پینے کے بجائے دوسرے پیالے میں پیا۔ا س پر آسیہ نے دلیل تو نہیں دی بلکہ اس نے نبی کریم کی ذات مبارک‘ حضرت خدیجہؓ سے نکاح اور قرآن پاک کے الہامی ہونے کے حوالے سے ایسے کلمات کہے جو توہین آمیز تھے۔ اس موقع پر اس باغ کا مالک ادریس بھی آگیا دونوں مسلم خواتین رو رہی تھیں اس نے معلومات کیں تو آسیہ نے اسے تسلیم کیا کہ اس نے ایسا ہی کہا ہے۔ آسیہ کے اعتراف کے بعد ایک مرتبہ پھر ایس پی انویسٹی گیشن کی موجودگی میں اور گاﺅں کے لوگوں کے سامنے آسیہ نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ اس کے بعد جب مقدمہ عدالت میں گیا تو وہاں بھی آسیہ نے اعتراف کیا۔ اس کے بعد دلائل ختم ہوگئے نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکیدار پھدک کر سامنے آگئے ‘اب مقدمہ کے جواب میں دلائل ختم قانون کو کالا قانون قرار دیا جانے لگا۔ اس سے شاید امریکا اور یورپ خوش ہوتے ہیں اس لیے ہمارے حکمرانوں نے بھی یہی وتیرہ اختیار کیا۔ انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے تاثیر صاحب کی اولاد سلمان تاثیر نے بھی یہی کیا ‘یہ سوچے بغیر کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سیشن اور ہائی کورٹ سپریم کورٹ اپیلٹ کورٹ سب کو چھوڑ کر دلائل کے بغیر صدرمملکت کے پاس اس کی سزا معاف کرانے پہنچ گئے۔ دلیل ختم ‘قانون غیر موثر ‘پارلیمنٹ مفلوج اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ وہی جو اس سے پہلے نکلا تھا۔ غیر منقسم ہندوستان میں راج پال کو (نعوذباللہ) رنگیلا رسول کی اشاعت پر سیشن کورٹ نے کیا سزا سنائی لیکن دلیل ختم کردی گئی ہائی کورٹ نے سزا نہیں سنائی یعنی دلیل ختم‘ قانون غیرموثر تو راستہ کس کے لیے کھلا رکھا گیا۔ ہر اس صاحب ایمان کے لیے جس کے دل میں اللہ کے رسول کی محبت زندہ ہے۔ چنانچہ غازی علم الدین شہید نے فیصلہ کردیا۔ اسی طرح کا فیصلہ عبدالقیوم کوچوان نے بھی کیا تھا۔ کیونکہ دلیل بے اثر کردی گئی تھی۔
سلمان تاثیر کو مارنے والے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ دلیل سے بات کرنی چاہیے تھی۔ تو دلیل تو یہ تھی کہ آپ عدالت جاتے‘ آسیہ کے خلاف مقدمہ میں کوئی سقم تلاش کرتے۔ آسیہ حق میں کچھ دلائل لاتے اور کسی اعلیٰ عدالت سے ایسا فیصلہ لیتے کہ وہ بچ بھی جائے اور توہین رسالت پر تائب بھی ہوجائے۔ لیکن دلیل کو تو راستہ خود نہیں دیا گیا فیصلہ سنادیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب غیر منقسم ہندوستان نہیں ہے۔ پاکستان کے 18 کروڑ مسلمانوں میں سے چند لاکھ غیر مسلم ہیں اگر قانون کو نافذ نہیں کریں گے تو پھر 18 کروڑ مسلمان آزاد ہیں وہ اپنے ایمان اور جذبے کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ یہ قانون تو سیفٹی والو (VALVE) ہے اگر یہ نہیں رہے گا تو فیصلہ سڑکوں پر ہی ہوگا دلیل کی بات کرنے والے تو خود معاملات کو سڑکوں پر لارہے ہیں زور زبردستی کے ذریعہ مسلط ہیں۔ رہا یہ سوال کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی یا نہیں۔ دو چیزوں کو سامنے رکھ لیں ایک دستور پاکستان کی دفعہ 295-C اور سلمان تاثیر کابیان۔ دفعہ 295-C کہتی ہے کہ جو کوئی عملاً ‘ زبانی یا تحریری طور پر یا بطور طعنہ زنی ‘ بہتان تراشی‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ ‘ اشارتاً کنایتاً محمد کی توہین‘ تنقیص یا بے حرمتی کرے گا وہ سزائے موت یا عمر قید کا مستوجب ہوگا۔ اسے جرمانے کی سزا بھی دی جاسکے گی (بعد میں وفاقی شریعت کورٹ نے عمر قید کے الفاظ حذف کردیے تھے) یہ فیصلہ بھی 30 اکتوبر 1990 ءکو ہوا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کا نہیں تھا۔
سلمان تاثیر نے کہا تھا کہ یہ کالا قانون ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا یہ جاہل مولوی میرا کیا بگاڑ لیں گے یہ خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔میں انہیں جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔
مولوی کو تو جو چاہیں کہہ لیں لیکن اس قانون کو کالا قانون انہوں نے کہا تھا ناں۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رکھوالوں‘ صدر ‘ وزیراعظم ‘ پارلیمنٹ ان کی ذمہ داری تھی کہ دستور کے مطابق سلمان تاثیر کو نااہل قرار دیتے اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا لیکن انہیں شہ دی گئی ان کو آگے بڑھایا گیا اور دلیل کو قانون کو اور دستور پاکستان کے علاوہ سب سے بالاتر چیز شریعت کا مذاق اڑایا گیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی غازی علم دین تو اٹھے گا۔ کوئی نہ کوئی عبدالقیوم کوچوان اٹھے گا چنانچہ سلمان تاثیرکے ہی اپنے ایلیٹ فورس کے گارڈ نے انہیں قتل کردیا۔ اب یہ فیصلہ حکمرانوں کو کرنا ہے کہ قانون کا نفاذ ضروری ہے یا قانون سے انحراف۔ وہ قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں یا 18 کروڑ عوام کو فیصلے کا اختیار دینا چاہتے ہیں یہ بات بھی بہت واضح ہونی چاہیے کہ رسول سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی حصہ ہے اور وہ یہ محبت دستور پاکستان یا دنیا کے کسی دستور کے ماتحت نہیں کرتا اگر پاکستان کے دستور میں یہ قانون نہ ہوتا‘ دستورمیں قرآن و سنت کو بالادست تسلیم نہ کیا گیا ہوتا تو بھی ہر مسلمان کا دل آقائے دو جہاں کی محبت سے اسی طرح سرشار ہوتا ۔ دستور تو ملکی معاملات چلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر انگریزسرکار مسلمانوں کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے 295-A کے تحت کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین یا اس کی کوشش پر دو سال قید اور جرمانے کی سزاسناسکتی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کیوں ایسا نہیں کرسکتی۔ یہ 295-C اس انگریز سرکار کے 153-A اور 295-A کی ترمیم شدہ شکل ہے۔ حتیٰ کہ دفعہ میں بھی حرف A کی جگہ C ہے۔
سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ سلمان تاثیر کا قتل ہوا کیوں.... اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر آسیہ کے کیس میں قانون کو نافذہونے دیتے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ توہین رسالت کے مرتکب فرد کی حمایت حکومتی شخصیات کی جانب سے ہو تو نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ ذرا اس پہلو سے بھی جائزہ لیں کہ شریعت کیا کہتی ہے۔ عہد رسالت کے واقعات سب سے اہم رہنمائی دیتے ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر سب کے لیے عام معافی ہے لیکن گستاخان رسالت کے لیے آپ نے خود حکم دیا کہ یہ لوگ اگر خانہ کعبہ کے پردے سے بھی چمٹ جائیں تو انہیں معاف نہ کیا جائے انہیں ہر صورت قتل کیا جائے۔ چنانچہ ابن خطل کو اسی حالت میں قتل کیا گیا کہ وہ خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹا ہوا تھا۔ ایک یہودی مروان بن زید کی بیٹی عصماجو شاعرہ تھی مسلمانوں اور حضور کی شان میں گستاخانہ شعر کہتی تھی۔ وہ اپنے حیض کے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی تھی۔ ایک نابینا صحابی عمیر بن عدیؓ نے بدر سے حضور کی واپسی کے بعد اس عورت کو رات میں اس کے گھر میں گھس کر ٹٹول کر اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ فجر کے بعد حضور کو اطلاع دی اور پوچھا مجھ سے اس قتل پر کوئی مواخذہ ہوگا؟ آپ کا جواب تھا دو بھیڑیں بھی آپس میں سر نہ ٹکرائیں گی۔ آنحضرت نے عمیرؓ کے بارے میں لوگوں سے کہا کہ (مفہوم) اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہے جس نے اللہ اور رسول کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدیؓ کو دیکھے۔ ان کو نابینا نہ کہو یہ بینا اور بصیر ہیں۔ اس واقعہ میں ممتاز قادری کو اس قتل کے مقدمہ سے بری کرنے کا حکم بھی نظرآتا ہے۔ اس کے بارے میں جتنی باتیں کرلی جائیں لیکن فیصلہ تو اللہ اور رسول کے اسوہ ¿ سے ہی لینا ہوگا۔ اسی طرح کعب بن اشرف کے قتل اور ابورافع یہودی کے قتل کے واقعات ہیں۔ ان سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلوں کی تعریف اور تحسین کی۔ سلمان تاثیر کے قتل اس کے اسباب‘ قاتل کے بارے میں فیصلہ یہ سب کچھ شریعت میں مل جائے گا۔ دستور پاکستان میں بھی مل جائے گا۔ ٹی وی چینلز پر یکطرفہ مباحثے کرنے والے کہہ رہے تھے کہ دینی جماعتوں کے لوگ بھاگ گئے ہیں چھپ رہے ہیں۔ لیکن اگلے روز کے اخبارات میں تو دینی جماعتوں کے لوگوں کی پریس کانفرنس اور بیانات چھپے ہوئے تھے۔ یہ کیسا بھاگنا ہے کہ ٹی وی پر نہیں آئے اور پرنٹ میڈیا پر آگئے۔ دراصل الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی چینلز اس ایجنڈے پر کام کررہے ہیں جو ناموس رسالت اور حدود آرڈیننس جیسے قوانین ختم کرانے کے لیے اس ملک میں چل رہا ہے۔ اگلے روز کے اخبار میں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا بیان شائع ہوا ہے جو ساری دینی جماعتوں کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قتل سے کسی مسلمان کو افسوس نہیں ہوسکتا۔ گویا ”دو بھیڑیں بھی سر نہیں ٹکرائیں گی“ 
سلمان تاثیر کی لاش انتظامیہ کے ہاتھ آنے سے لے کر نماز جنازہ تک کے معاملات قوم نے دیکھ لیے ہوں گے۔ دلیل کی ایک اور بات سن لیں سلمان تاثیر نے بیک وقت کئی خلاف ورزیاں کیں۔ ایک طرف شریعت کا مذاق اڑایا۔ دوسری طرف دستور پاکستان کی خلاف ورزی کی اور تیسرے عدالتی فیصلے کی بے حرمتی کی۔ پھر ملک ممتاز نے بھی قانون ہاتھ میں لے لیا تو کیا ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا اس طرح توہین رسالت کرنے والے دندناتے پھریں گے۔ قانون‘ آزادی اظہار‘ آئین‘ رواداری وغیرہ کے نام پر آقائے دو جہاں کا مذاق اڑایا جائے گا؟ کیا یہ لوگ اب مسلمان گارڈز نہیں رکھیں گے؟ کیا سارے وی وی آئی پیز امریکن بلیک واٹر کی خدمات لیں گے؟ اور کیا پورے پاکستان کی پولیس اور فوج میںعیسائی اور یہودی یا ہندو اور سکھ بھرتی کیے جائیں گے؟ ان سوالات کا جواب بھی حکمرانوں کے پاس ہے اگر وہ اپنی اور اس ملک کی خیر چاہتے ہیں تو شریعت کا قانون نافذ کردیں۔ اس حوالے سے تو پاکستانی قانون کی دفعہ 295-C ہی کافی ہے۔ ورنہ 18 کروڑ مسلمان فیصلہ کریں گے‘ فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔
رواداری کے بارے میں غلط فہمی دور کرلیں ہمیں اور آپ کو برا بھلا کہا جائے تو رواداری کا مظاہرہ کیا جاسکتاہے لیکن انبیاءکی شان میں گستاخی رواداری کے پردے کے پیچھے نہیں چھپ سکتی۔ یہ کیسی رواداری ہے کہ ہندوستان میں امبیدکرکے مجسمے کی بے حرمتی پر قتل و غارت ہوجاتا ہے۔ بے نظیر کی یادگار کی بے حرمتی پر کراچی بند کرادیا جاتا ہے۔ الطاف حسین کو برا بھلا کہنے پر ”تیری ایسی تیسی“ کراچی آکر دیکھ کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ رسول پاک کی ذات کے سامنے کیا بیچتے ہیں ان کے مقابلے میں ٹکے کی حیثیت بھی نہیں اس وقت رواداری کہاں جاتی ہے جو آج سوگ منارہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment