Wednesday, December 1, 2010

بدعنوانی معیشت کے لیے سنگین خطرہ

پاکستان کو وجود میں آئے 62 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک اپنے قدموں پرکھڑے ہوگئے‘ معاشی اورسیاسی استحکام کی منازل طے کرلیں لیکن پاکستان ابھی تک سیاسی طورپر مستحکم نہیں ہوسکا جبکہ اس کی معیشت کا دارومداراب بھی غیرملکی امداد اورقرضوں پرہے۔ قوم کو بحیثیت مجموعی اپنی کارکردگی کاجائزہ لے کر اس بات پرغورکرنا ہوگا کہ اس ملک میں تمام ترٹیلنٹ ‘ صلاحیت اور جوہرقابل کی موجودگی کے باوجود سیاسی اور معاشی استحکام کیوں نصیب نہیں ہوسکا۔ ایٹمی قوت بننے والی قوم غیروں کے سامنے کشکول پھیلانے‘ امداد پر زندہ رہنے پرمجبورکیوں ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں‘ سیاستدانوں بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں نے اپنا گھر بھرنے‘ اپنے اثاثے بڑھانے‘ اپنی دولت میں اضافے کرنے پرہی توجہ مرکوزرکھی اور اسی مقصد کے لیے شب و روز کوشاں رہے اور اس مقصد میں انہیں کامیابی بھی ہوئی۔ اس ملک میں محنت اور دیانت کے کلچرکو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ محنت ودیانت کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ دولت کے حصول کی ہوس وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ کرپشن وقت کا سب سے کامیاب سکہ قرارپایا۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ ہمارا ملک تعلیم‘ ٹیکنالوجی ‘ تجارت اور معیشت میں تونام نہ کماسکا لیکن کرپشن میں اس کانام نمایاں اور سرفہرست ہے۔ پاکستان میں کرپشن‘ بدعنوانی اور سیاسی اقرباءپروری کی جڑیں کتنی گہری اور دورتک پھیلی ہوئی ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں منظرعام ہرآنے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس کے مطابق پاکستان نے کرپشن کے میدان میں 5 قدموں کی مزید پیش رفت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن میں 2009ءمیں دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42 ویں نمبرپرآگیاہے جبکہ 2008ءمیں اس کا مقام 47 واں تھا۔ طالبان سے نجات حاصل کرنے اور امریکی کٹھ پتلی حامدکرزئی کے افغانستان کو دنیا کے دوسرے کرپٹ ترین ملک کا اعزاز حاصل ہے۔ افغانستان‘ عراق اور پاکستان جہاں امریکی مداخلت زوروں پرہے وہاں کرپشن بھی عروج پرہے۔ شاید امریکی مداخلت اورکرپشن کا بھی باہمی گہرا تعلق ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے ان ممالک میں جہاں کرپشن زیادہ ہے وہاں غربت‘ افلاس‘ بھوک‘ بیماریاں اور بے روزگاری کی سطح بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں پولیس‘ اسٹیل ملز‘ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ‘ پی آئی اے‘ نیشنل ہائی وے‘ اوجی ڈی سی‘ پی ایس او‘ پیپکو‘ سی ڈی اے ‘ ڈی ایچ اے کے متعلق قومی اوربین الاقوامی سطح پر یہ تصور عام ہے کہ یہ ادارے شدید کرپشن اور بدعنوانی کا شکار ہیں کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پاکستان ریلوے 56 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہے۔ پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش‘ گوئٹے مالا‘ لیتھونیاپولینڈ اور شام جیسے ممالک میں کرپشن میں کمی آئی ہے۔
حال ہی میں این آر او سے مستفید ہونے والوں کی جوفہرست جاری کی گئی ہے اسے دیکھ کر دنیا بھرمیں پاکستانیوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ جسے ڈنمارک‘ ملائیشیا‘ آسٹریلیا میں مقیم درجنوں پاکستانیوں کی ای میلز موصول ہوئی ہیں جنہوں نے پاکستان میں بدعنوانی کی سطح میں اضافے پر شرمندگی کا اظہارکیاہے۔ ان پاکستانیوں کا کہناہے کہ اس طرح کی فہرست کے اجراسے انہیں غیرملکیوں کا سامنا کرنے میں خفت محسوس ہوتی ہے۔ این آر او سے استفادہ کرنے والے سیاستدانوں کی تعداد 8041 ہے۔ این آر او مشرف راج کی ایسی بہتی گنگا تھی جس نے کرپشن کے سارے داغ دھوڈالے۔ کوریا کے سابق صدر پرکرپشن کا الزام لگا تو وہ قوم سے اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہوں نے قوم کے نام ایک نوٹ لکھا جس میں اس بات پر ندامت کا اظہارکیاکہ وہ قوم کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے اس لیے انہوں نے پہاڑ پرسے کودکر اپنی جان دے دی۔ غیرمسلم ممالک کے حکمرانوں میں اس قدر اخلاقی جرات ہے کہ کرپشن کا داغ لے کر عوام کے سامنے نہیں جاسکتے لیکن پاکستان میں کیفیت اس کے برعکس ہے۔ پاکستانی سیاست میں کرپشن سے پاک لوگوں کا سیاست میں کامیاب ہونا ناممکن تصور کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ سیاست تو گندگی اور کرپشن کا کھیل ہے۔ اس کی بنیاد تو بے ایمانی‘ دھوکے اور فریب پر رکھی جاتی ہے اس میں دیانت دار محب وطن اور فرض شناس لوگوں کا کیا کام۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناحؒ‘ علامہ اقبالؒ‘ لیاقت علی خانؒ‘ مولانا محمدعلی جوہرؒ‘ مولانا ظفرعلی خانؒ‘ نواب بہادریارجنگ ‘ خواجہ ناظم الدین ‘ سردار عبدالرب نشتر جیسے دیانتدار‘ با اصول اوربے باک سیاستدانوں اور قائدین کی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیاتھا۔ این آر او کے ذریعے ایک کھرب 65 ارب روپے کی بدعنوانیوں کے مقدمات ختم کیے گئے۔
نیب کے اعداد وشمار کے علاوہ بندہونے والے کیسز کی تعداد کا حقیقی تخمینہ ایک ہزار ارب روپے ہے۔ صرف ایک کیس میں 122 ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام تھا۔
پاکستان میں کرپشن کی سطح کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اگر کسی پروجیکٹ میں 40 فیصد رقم حقیقتاً اس منصوبے پر خرچ کردی جائے تو اسے ایک کامیاب پروجیکٹ قراردیا جاتاہے۔ پاکستان کو 1996ءمیں دنیا کے دوسرے کرپٹ ترین ملک ہونے کا اعزازحاصل تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے طرز حکومت میں کچھ بہتری آئی تو دوسری جانب کچھ اورممالک میں کرپشن کی سطح بڑھ گئی اورپاکستان کا 1997ءمیں اسکور 2.5 تھا ۔ 1998ءمیں بڑھ کر 2.7 ہوگیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اسکورتھا۔ مشرف دورمیں بہترطرز حکومت کا ڈھول پیٹاگیا لیکن ان کے دورکا سب سے بہتر اسکور2002ءمیں 2.6 تھا جو 2004ءاور 2005ءمیں کم ہوکر 2.5 رہ گیا۔ 2.5 کے اسکورپر کرپشن انتہائی بلند یعنی 75 فیصد سمجھی جاتی ہے۔ 2002ءمیں کرپشن 45 ارب روپے سالانہ تھی جبکہ 2009ءمیں یہ بڑھ کر 195 ارب سالانہ ہوگئی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن سرمایہ کاری کی شدید حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہے۔ کرپشن کاروبارکو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ کرپشن کی وجہ سے کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے‘ منافع میں کمی ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محنت اور دیانت کی شدید حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ جب کرپٹ لوگوں کے گھرہرطرح کی سہولیات اور تعیشات سے بھرے ہوتے ہیں اور دیانت دار لوگ بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہوں تو اس سے شدید احساس محرومی جنم لیتاہے توخونی انقلاب کی راہ ہموارکرتاہے۔ پاکستان میں 1985ءسے 1994ءتک 300 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے جبکہ صدر مشرف کے دور 2000 سے 2006ءتک 135 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔
پاکستان میں اگرکرپشن کا خاتمہ کردیاجائے تو تیز رفتارترقی کے لیے موجودہ ترقیاتی بجٹ کا ایک چوتھائی بھی کافی ہوگا۔ اگرپاکستان سے کرپشن کاخاتمہ ہوجائے تو ہمیں آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور امریکا کے سامنے جھولی یا کشکول پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 
ڈاکٹرسیدمحبوب 

No comments:

Post a Comment