دنیا میں علیحدگی کی جتنی تحریکیں چلی ہیں ان میں اقلیت ہمیشہ اکثریت سے لگ ہوئی ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس یہ تھا کہ مشرقی پاکستان اکثریت کا نمائندہ تھا اور مغربی پاکستان اقلیت کا ترجمان مگر اس کے باوجود اکثریت کہہ رہی تھی کہ ہم اقلیت کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ صورتحال اس کے باوجود تھی کہ تحریک پاکستان میں بنگالیوں کا حصہ مغربی پاکستان کے لوگوں سے بہت زیادہ تھا۔ آج ہم شیخ مجیب الرحمان کو غدار کہتے ہیں مگر یہ غدار تحریک پاکستان کا ایک مخلص اور جذباتی کارکن تھا۔ لیکن صرف 24 سال میں مشرقی پاکستان کا سارا جذبہ‘ سارا خلوص اور ساری قربانیاں خواب وخیال بن گئیں اور انہیں صرف یہ یاد رہ گیا کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سارا معاملہ بھارت کی مداخلت نے خراب کیا۔ بھارت مداخلت نہ کرتا تو مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا لیکن دو بھائی باہم دست وگریبان نہ ہوتے تو بھارت کو مداخلت کی جرات نہیں ہوسکتی تھی۔ ہمارے گھر کے جھگڑوں نے بھارت کو مداخلت کے لیے اکسایا اور ہمارے گھرکے فساد نے اسے مشرقی پاکستان میں فوج داخل کرنے پر مائل کیا۔ آج ہم ایک بار پھر چیخ رہے ہیں کہ امریکا بلوچستان میں مداخلت کرکے اس کی علیحدگی کی راہ ہموار کررہا ہے۔ لیکن بلوچستان کو آتش فشاں کس نے بنایا ہے؟ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی تاریخ کس نے رقم کی ہے۔؟ ہمارے اپنے معاملات درست ہوتے تو اپنی ساری طاقت کے باوجود امریکا بلوچستان پر گفتگو کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہم مشرقی پاکستان کے لوگوں کے سلسلے میں کہا کرتے تھے کہ یہ ہماری معیشت پر بوجھ ہیں اس لیے کہ مشرقی پاکستان سمندری طوفانوں اور سیلابوں کی سرزمین تھا۔ لیکن بلوچستان تو سونے کی کان ہے اور اس کی آبادی صرف 70 لاکھ ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ صرف 70 لاکھ لوگوں کو بھی خوش نہیں رکھ سکا۔ سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا ہے۔؟ شیخ محی الدین ابن عربی کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ شیخ اکبر کسی نخلستان سے گزر رہے تھے اور لوگوں کا ایک گروہ شیخ اکبر کے پیچھے یہ جانے بغیر سفر کررہا تھا کہ ان کے آگے کون چلا جارہا ہے۔ شیخ اکبر نخلستان سے گزرے تو ہرنوں کی ایک ڈار گھاس چررہی تھی۔ شیخ اکبر ہرنوں کے درمیان سے گزرے مگر ہرنوں نے شیخ اکبر کی موجودگی کو محسوس نہیں کیا اور اسی طرح یکسوئی کے ساتھ چرتے رہے۔ لیکن شیخ اکبر کے بعد آنے والے لوگ ہرنوں کے پاس پہنچے تو ہرن اِدھر اُدھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے اس فرق کو محسوس کیا اور لپک کر شیخ اکبر کے پاس پہنچے۔ انہوں نے پوچھا کہ حضرت آپ ہرنوں کے درمیان سے گزرے تو ہرنوں میں سے ایک بھی اِدھر اُدھر نہ ہوا مگر ہمارے آتے ہی تمام ہرن بھاگ کھڑے ہوئے۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ شیخ اکبر نے کہا۔ میرے دل میں ہرنوں کے لیے جو امان تھی اس کا ابلاغ ان تک ہوا۔ یہ واقعہ دس‘ بارہ سال پرانا ہے کہ ہمارے دفتر کے ایک صاحب ایک دن لنگڑاتے ہوئے دفتر پہنچے تو ہم نے پوچھا کہ بھائی کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگے آپ کو تو معلوم ہے میں نے ایک کتّا پالا ہوا ہے۔ وہ پلّا تھا جب اسے اپنے گھر لایا تھا۔ اب وہ جوان ہوچکا ہے۔ میں نے اسے عادت ڈالی ہوئی ہے کہ ہاکر صبح کو اخبار ڈالتا ہے تو میرے کہنے پر وہ اخبار اٹھا لاتا ہے۔ کل صبح وہ کچھ سست تھا۔ میں نے حسب سابق اس سے اخبار لانے کو کہا مگر وہ بیٹھا رہا۔ چنانچہ میں خود اٹھا اور اخبار اٹھا لایا مگر آتے ہوئے اسے غصے میں ٹھوکر مار دی۔ میں اپنی جگہ آکر اخبار پڑھنے لگا۔ کتا کچھ دیر بیٹھا رہا مگر پھراچانک اٹھا اور آکر میرے پائوں میں کاٹ لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتّوں کی بھی ایک عزت‘ خود تکریمی‘ یاSelf respect ہوتی ہے اور وہ بھی محبت اور نفرت کے فرق کو پہچانتے ہیں۔ یہاں تک کہ بے عزتی پر بچپن سے پلا ہوا کتّا بھی اپنے مالک کوکاٹ سکتا ہے۔ محبت آمیز تکریم زندگی کی بنیادی ضرورت اور اس کا بنیادی اصول ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے انسان کیا حیوان بھی پہچانتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن انسانوں نے دنیا کو نفرت‘ حقارت‘ اور بے تکریمی سے بھر دیا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے بنیادی رشتے بھی زہر آلود ہوگئے ہیں۔ گھر گھر شوہر اور بیوی کے درمیان تصادم ہورہا ہے۔ بھائی بھائی کے خلاف صف آرا ہے۔ پڑوسی پڑوسی کے خلاف سازش کررہا ہے۔ گروہ گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں ہے۔ کہیں نفرت اور بے تکریمی سطح پر ہے اور اسٹیج پر کھڑی بنکار رہی ہے۔ کہیں نفرت اور بے تکریمی دلوں میں پوشیدہ ہے مگر مسلسل اس کا ابلاغ ہورہا ہے۔ طاقت ور قومیں امن کی بات کرتی‘ لیکن اکثر امن مذاکرات بھی نفرت اور بے تکریمی کی فضا میں ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امن اور جنگ میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ دنیا میں جو جنگ سطح پر نہیں لڑی جا رہیں وہ زیر زمین اور پس منظر میں رہ کر لڑی جارہی ہے۔ زندگی کا دوسرا بنیادی اصول انصاف ہے اور انصاف کی تعریف یہ ہے کہ انصاف کو انصاف نظر بھی آنا چاہیے۔ مگر اب عدالتوں میں اکثر فیصلے تو ہوتے ہیں انصاف نہیں ہوتا۔ انفرادی‘ اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی میں انصاف ناپید ہوچلا ہے۔ کہیں انصاف ہوتا بھی ہے تو اس کا انصاف ہونا ظاہر اور ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں انصاف کی نوعیت تکنیکی ہوگئی ہے۔ اور تکنیکی انصاف‘ تصور انصاف کی ضد ہے۔ لیکن تکنیکی انصاف کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ایک مثال مشرقی پاکستان ہے جس کی آبادی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی لیکن 54 فیصد کے بجائے 50 فیصد وسائل قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن فوج اور سول سروس میں مشرقی پاکستان کا حصہ 20 فیصد بھی نہیں تھا۔ تکنیکی انصاف کی ایک مثال بلوچستان ہے۔ بلوچستان کی صورتحال میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے غربت‘ پسماندگی اور قومی وسائل میں اس کے حصے کے اعتبار سے وسائل مہیا کیے جائیں لیکن بلوچستان کو اس کی آبادی کی بنیاد پر وسائل مہیا کیے جاتے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تکنیکی انصاف کی مثال اقوام متحدہ ہے جہاں اکثریت کے اصول کے بجائے طاقت کے اصول کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل 60 سال سے حل طلب ہیں۔ البتہ مشرقی تیمور کا مسئلہ صرف ایک سال میں حل ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی تیمور کے لوگوں کو امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل تھی۔ اس صورت حال نے دنیا کے منظر نامے کو دھماکہ خیز بنا دیا ہے۔ ان حقائق کا مفہوم عیاں ہے۔ زندگی کو ہر سطح پر محبت آمیز تکریم اور انصاف کی ضرورت ہے۔ لیکن ان تصورات کی جانب واپسی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انسان اپنے تعلقات اور معاملات میں خدا کو حکَم نہ مان لیں۔ مگر انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرطان کا علاج نزلے کی دوا سے کرنا چاہتی ہے۔ وہ آسمانی ہدایت کے بجائے اپنی عقل پر انحصار کررہی ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عقل پر انحصار کی بات بھی محض اضافہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کے نزدیک ان کا ذاتی‘ گروہی اور قومی مفاد ہی ان کی وحی ہے۔ ان کا الہام ہے۔ ان کی عقل ہے۔
No comments:
Post a Comment