دنیا میں ایسے انسان کا تصور محال ہے جو مسلسل بھوکا رہنے کو پسند کرے اور غذائی قلت کا شکار ہوکر بھوک اور افلاس کا اشتہار بن جائے۔ اس کے برعکس ہرآدمی کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر غذا کھائے۔ جن لوگوں کی استطاعت ہوتی ہے وہ دن میں کم از کم تین بار کھانا ضرور کھاتے ہیں۔ ”چٹورے“ لوگوں کا معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت ہی کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ غذا سے انسان کے اس تعلق کو سمجھنا دشوار نہیں۔ غذا جسم کی بنیادی ضرورت ہے۔ غذا جسم کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ غذا وہ توانائی پیدا کرتی ہے جس کے ذریعے انسان ہزاروں کام کرتا ہے۔ غذا صحت کی بقا اور فروغ کے حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ غور کیا جائے تو جس طرح انسان کو جسم کی بقا و سلامتی اور فروغ کے لیے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح، قلب اور ذہن کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہماری دنیا میں ”جسمانی غذا“ کا شعور جتنا عام ہے روحانی، قلبی اور ذہنی غذا کا شعور اتنا ہی کمیاب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں اربوں انسان روحانی، قلبی اور ذہنی غذا کی قلت کا شکار ہیں، لیکن غذائی قلت کی یہ صورت دنیا میں کہیں شہ سرخیاں تخلیق نہیں کررہی۔ اقوامِ متحدہ کے کسی فورم پر یہ مسئلہ زیر بحث نہیں۔ اس حوالے سے آج تک کسی علاقائی یا بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ سرے سے خبر ہی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا مذہب سے بے نیاز ہوکر روحانی، قلبی اور ذہنی غذا کے تصور سے بیگانہ ہوگئی ہے۔ ذہنی غذا کا تصور تو پھر بھی دنیا میں موجود ہے، مگر روحانی اور قلبی غذا کا تصور لامذہب معاشروں میں کیا مذہبی معاشروں میں بھی نہیں پایا جاتا۔ تجزیہ کیا جائے تو اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے اسے عرف عام میں ”مطالعہ“ کہا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی میں مطالعے کی اور کیا اہمیت ہے؟
انسان کی زندگی جیسی کچھ بھی ہوتی ہے بیشتر صورتوں میں اس کے مشاہدوں اور تجربوں کا حاصل ہوتی ہے لیکن ایک انسان کو اپنی زندگی میں کتنے مشاہدات اور کتنے تجربات ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو انسان کو مشاہدات اور تجربات کے سلسلے میں تین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک یہ کہ انسان کی زندگی مختصر اور ماحول محدود ہوتا ہے چنانچہ اس کے حقیقی مشاہدات و تجربات کم ہی ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں انسان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان جن مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے ان میں سے اکثر انسان کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں، انسان جن چیزوں کو بھول جاتا ہے وہ اس کی زندگی میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کرتیں۔ مشاہدات اور تجربات کے سلسلے میں انسان کی تیسری مشکل یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے مشاہدات اور تجربات کو ایک لڑی میں پرو کر امن سے زندگی کے سلسلے میں ایک تناظر یا Perspective برآمد نہیں کرپاتے۔ مطالعے کا کمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان سینکڑوں ہزاروں نئے مشاہدات اور تجربات سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ہر لکھنے والے کی فکری کائنات مختلف ہوتی ہے اس لیے مطالعہ جیسے جیسے بڑھتا ہے انسان کے مشاہدات اور تجربات میں تنوع بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریریں بالخصوص اعلیٰ تحریریں ایک منظم اور مرتب فکر کا حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان میں زندگی کے بارے میں ایک تناظر بھی موجود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مولانا مودودیؒ کو پڑھے اور اسے زندگی کے حوالے سے ایک تناظر فراہم نہ ہو۔ انسان میر تقی میر کی شاعری پڑھے اور اس میں زندگی کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھنے کی اہلیت نہ پیدا ہو۔ آدمی ٹی ایس ایلیٹ، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کی تنقید پڑھے اور اس کی فکر و نظر کو ایک رخ فراہم نہ ہو۔
انسانوں کی عظیم اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، مگر ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ مطالعہ انسان کے ایسے خیالات، جذبات اور احساسات کو نام دے دیتا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کے پاس خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔ مطالعہ انہیں چہرہ فراہم کرتا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کے پاس خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں مگر ان کے پاس ان کے اظہار کا ”سانچہ“ نہیں ہوتا۔ مطالعہ انہیں اظہار کا سانچہ فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے بڑے بڑے لوگ مطالعے کے محتاج ہوتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں، انہوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ ایک وقت تھا کہ میرے پاس افسانہ لکھنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہوتا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ مجھے ہر گلی کے نکڑ پر دو تین افسانے پڑے ہوئے مل جاتے تھے۔ یہ تبدیلی مشق و مطالعے ہی کا حاصل ہوسکتی ہے۔ ہماری شاعری میں روایتی اساتذہ جب کسی کو شاعری ”سکھاتے“ تھے تو اس سے کہتے تھے کہ تم مختلف شاعروں کے پانچ چھ ہزار شعر یاد کرکے دکھاﺅ اور جب وہ ایسا کرلیتے تھے تو ان سے کہا جاتا تھا کہ اب تم ان شعروں کو بھول جاﺅ۔ یعنی انہیں اپنے شعور میں ”جذب“ کرکے دکھاﺅ تاکہ یہ شعر، ان کے اسالیب، ان کا مواد اور ان میں موجود تناظر تمہارے وجود کا حصہ بن جائے، اور تمہاری ”شاعرانہ، شخصیت“ کی تعمیر ہوسکے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان اپنے مطالعے کے زیر اثر ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کا مطالعہ ہوتا ہے۔ علما چونکہ مذہب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں اس لیے ان کے زبان و بیان پر مذہبی الفاظ اور اصطلاحوں کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات چونکہ نفسیات زیادہ پڑھتے ہیں اس لیے وہ نفسیاتی اصطلاحوں میں سوچنے اور کلام کرنے لگتے ہیں۔ کاروباری لوگ کاروباری زبان بولنے لگتے ہیں، ادیب اور شاعر ادبی زبان کے دائرے میں زندگی بسر کرتے ہیں، اخبارات کی زبان آٹھ سو سے ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، چنانچہ جن لوگوں کا مطالعہ صرف اخبار تک محدود ہوتا ہے ان کی لغت آٹھ سو سے ایک ہزار الفاظ تک محدود ہوجاتی ہے، چونکہ ہماری صحافت پر سیاست کا غلبہ ہے اس لیے صرف اخبار پڑھنے والوں کی دلچسپی سیاست تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ کالم ایک طرح کی ریزہ خیالی ہے۔ کالم نویس زندگی کے کسی ایک مسئلے کو لیتا ہے اور اس پر دوچار باتیں کہہ کر کالم تمام کردیتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے مطالعے کو کالم تک محدود کرتے ہیں وہ ریزہ خیالی کے عادی ہوکر منظم اور مرتب انداز میں دور تک سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کالم سو میٹر کی دوڑ کی طرح ہے۔ چنانچہ کالم پڑھنے والوں کو صرف سو میٹر تک دوڑنے کی عادت ہوجاتی ہے اور اس سے آگے دوڑنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے 99.9 فی صد کالم نویسوں کے 99.9 فی صد کالم سیاست کے بارے میں ہوتے ہیں اس لیے کالم پڑھنے والوں کا ذوق صرف سیاسی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کالم کے مقابلے پر کتاب ایک مرتب اور منظم خیال کو دور تک پھیلانے کی علامت ہے اور اس اعتبار سے اس کی نوعیت ”میراتھن“ دوڑ کی طرح ہے۔ یعنی جو لوگ کتاب پڑھنے کے عادی ہوجاتے ہیں وہ منظم اور مرتب فکر کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یعنی دور تک دوڑنے سے ان کا سانس نہیں پھولتا۔ ڈی ایچ لارنس نے ناول کے بارے میں کہا ہے کہ ناول ایٹم بم سے زیادہ بڑی ایجاد ہے اور اس صنف ادب کی عظمت یہ ہے کہ یہ زندگی کے تجربے کی کلیات یا Totality کو بیان کرتا ہے۔ لارنس کی یہ بات دنیا کے بڑے ناول نگاروں مثلاً دوستو وسکی یا قرة العین حیدر کے بارے میں بالکل درست ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ بڑے ناول نگاروں کے ناول پڑھتے ہیں وہ زندگی کو آفاقی تناظر میں دیکھتے اور محسوس کرنے کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً دوستو وسکی کا ناول ایک جانب جہاں دوستو وسکی کے مثالی انسان کو سامنے لاتا ہے وہیں اس کے پورے عہد اور اس کے مرکزی رجحانات کو بھی سامنے لاتا ہے۔ قرة العین حیدر کا ناول آگ کا دریا ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کے تجربے کو بیان کرنے والا ناول ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
نظیر صدیقی نے اس حوالے سے محمد حسن عسکری کے بارے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عسکری صاحب ادب کو روحانی سطح پر پڑھنے کے قابل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مطالعہ اس طرح کرنا چاہیے کہ پڑھی جانے والی چیز قاری کے لیے ایک واردات اور ایک ذاتی تجربہ بن جائے اور اس سے اس کا پورا وجود متاثر ہوجائے۔ یعنی مطالعے سے صرف قاری کے ذہن کو اور صرف، جذبات کو متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ قاری کی روح اور قاری کے دل کو بھی اس کی گرفت میں آجانا چاہیے۔ لیکن یہ کام کیسے ہوتا ہے؟ اس کا کوئی ایسا اصول نہیں جو ہر شخص کے لیے کفایت کرے البتہ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ پڑھی گئی چیز کو بار بار پڑھا جائے، دوسری یہ کہ پڑھی گئی چیز کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے، تیسری یہ کہ پڑھی گئی چیز ہماری گفتگو کا حصہ بن جائے، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے مطالعے بالخصوص کتاب کے مطالعے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ ہم دو ہزار روپے کے جوتے کو سستا اور دو سو روپے کی کتاب کو مہنگا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں کتاب سے زیادہ سستی چیز کا تصور محال ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دو سو روپے میں دیوان غالب خریدتے ہیں تو ہم صرف غالب کی شاعری نہیں اس کی پوری زندگی خرید لیتے ہیں، اور غالب کی پوری زندگی دو سو روپے کیا دو سو ارب روپے میں بھی سستی ہے۔ اس لیے کہ دو سو ارب روپے صرف کرکے بھی غالب کو پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس بات کا شعور بھی مطالعے ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔
انسان کی زندگی جیسی کچھ بھی ہوتی ہے بیشتر صورتوں میں اس کے مشاہدوں اور تجربوں کا حاصل ہوتی ہے لیکن ایک انسان کو اپنی زندگی میں کتنے مشاہدات اور کتنے تجربات ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو انسان کو مشاہدات اور تجربات کے سلسلے میں تین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک یہ کہ انسان کی زندگی مختصر اور ماحول محدود ہوتا ہے چنانچہ اس کے حقیقی مشاہدات و تجربات کم ہی ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں انسان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان جن مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے ان میں سے اکثر انسان کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں، انسان جن چیزوں کو بھول جاتا ہے وہ اس کی زندگی میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کرتیں۔ مشاہدات اور تجربات کے سلسلے میں انسان کی تیسری مشکل یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے مشاہدات اور تجربات کو ایک لڑی میں پرو کر امن سے زندگی کے سلسلے میں ایک تناظر یا Perspective برآمد نہیں کرپاتے۔ مطالعے کا کمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان سینکڑوں ہزاروں نئے مشاہدات اور تجربات سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ہر لکھنے والے کی فکری کائنات مختلف ہوتی ہے اس لیے مطالعہ جیسے جیسے بڑھتا ہے انسان کے مشاہدات اور تجربات میں تنوع بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریریں بالخصوص اعلیٰ تحریریں ایک منظم اور مرتب فکر کا حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان میں زندگی کے بارے میں ایک تناظر بھی موجود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مولانا مودودیؒ کو پڑھے اور اسے زندگی کے حوالے سے ایک تناظر فراہم نہ ہو۔ انسان میر تقی میر کی شاعری پڑھے اور اس میں زندگی کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھنے کی اہلیت نہ پیدا ہو۔ آدمی ٹی ایس ایلیٹ، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کی تنقید پڑھے اور اس کی فکر و نظر کو ایک رخ فراہم نہ ہو۔
انسانوں کی عظیم اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، مگر ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ مطالعہ انسان کے ایسے خیالات، جذبات اور احساسات کو نام دے دیتا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کے پاس خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔ مطالعہ انہیں چہرہ فراہم کرتا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کے پاس خیالات، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں مگر ان کے پاس ان کے اظہار کا ”سانچہ“ نہیں ہوتا۔ مطالعہ انہیں اظہار کا سانچہ فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے بڑے بڑے لوگ مطالعے کے محتاج ہوتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں، انہوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ ایک وقت تھا کہ میرے پاس افسانہ لکھنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہوتا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ مجھے ہر گلی کے نکڑ پر دو تین افسانے پڑے ہوئے مل جاتے تھے۔ یہ تبدیلی مشق و مطالعے ہی کا حاصل ہوسکتی ہے۔ ہماری شاعری میں روایتی اساتذہ جب کسی کو شاعری ”سکھاتے“ تھے تو اس سے کہتے تھے کہ تم مختلف شاعروں کے پانچ چھ ہزار شعر یاد کرکے دکھاﺅ اور جب وہ ایسا کرلیتے تھے تو ان سے کہا جاتا تھا کہ اب تم ان شعروں کو بھول جاﺅ۔ یعنی انہیں اپنے شعور میں ”جذب“ کرکے دکھاﺅ تاکہ یہ شعر، ان کے اسالیب، ان کا مواد اور ان میں موجود تناظر تمہارے وجود کا حصہ بن جائے، اور تمہاری ”شاعرانہ، شخصیت“ کی تعمیر ہوسکے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان اپنے مطالعے کے زیر اثر ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کا مطالعہ ہوتا ہے۔ علما چونکہ مذہب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں اس لیے ان کے زبان و بیان پر مذہبی الفاظ اور اصطلاحوں کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات چونکہ نفسیات زیادہ پڑھتے ہیں اس لیے وہ نفسیاتی اصطلاحوں میں سوچنے اور کلام کرنے لگتے ہیں۔ کاروباری لوگ کاروباری زبان بولنے لگتے ہیں، ادیب اور شاعر ادبی زبان کے دائرے میں زندگی بسر کرتے ہیں، اخبارات کی زبان آٹھ سو سے ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، چنانچہ جن لوگوں کا مطالعہ صرف اخبار تک محدود ہوتا ہے ان کی لغت آٹھ سو سے ایک ہزار الفاظ تک محدود ہوجاتی ہے، چونکہ ہماری صحافت پر سیاست کا غلبہ ہے اس لیے صرف اخبار پڑھنے والوں کی دلچسپی سیاست تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ کالم ایک طرح کی ریزہ خیالی ہے۔ کالم نویس زندگی کے کسی ایک مسئلے کو لیتا ہے اور اس پر دوچار باتیں کہہ کر کالم تمام کردیتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے مطالعے کو کالم تک محدود کرتے ہیں وہ ریزہ خیالی کے عادی ہوکر منظم اور مرتب انداز میں دور تک سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کالم سو میٹر کی دوڑ کی طرح ہے۔ چنانچہ کالم پڑھنے والوں کو صرف سو میٹر تک دوڑنے کی عادت ہوجاتی ہے اور اس سے آگے دوڑنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے 99.9 فی صد کالم نویسوں کے 99.9 فی صد کالم سیاست کے بارے میں ہوتے ہیں اس لیے کالم پڑھنے والوں کا ذوق صرف سیاسی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کالم کے مقابلے پر کتاب ایک مرتب اور منظم خیال کو دور تک پھیلانے کی علامت ہے اور اس اعتبار سے اس کی نوعیت ”میراتھن“ دوڑ کی طرح ہے۔ یعنی جو لوگ کتاب پڑھنے کے عادی ہوجاتے ہیں وہ منظم اور مرتب فکر کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یعنی دور تک دوڑنے سے ان کا سانس نہیں پھولتا۔ ڈی ایچ لارنس نے ناول کے بارے میں کہا ہے کہ ناول ایٹم بم سے زیادہ بڑی ایجاد ہے اور اس صنف ادب کی عظمت یہ ہے کہ یہ زندگی کے تجربے کی کلیات یا Totality کو بیان کرتا ہے۔ لارنس کی یہ بات دنیا کے بڑے ناول نگاروں مثلاً دوستو وسکی یا قرة العین حیدر کے بارے میں بالکل درست ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ بڑے ناول نگاروں کے ناول پڑھتے ہیں وہ زندگی کو آفاقی تناظر میں دیکھتے اور محسوس کرنے کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً دوستو وسکی کا ناول ایک جانب جہاں دوستو وسکی کے مثالی انسان کو سامنے لاتا ہے وہیں اس کے پورے عہد اور اس کے مرکزی رجحانات کو بھی سامنے لاتا ہے۔ قرة العین حیدر کا ناول آگ کا دریا ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کے تجربے کو بیان کرنے والا ناول ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
نظیر صدیقی نے اس حوالے سے محمد حسن عسکری کے بارے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عسکری صاحب ادب کو روحانی سطح پر پڑھنے کے قابل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مطالعہ اس طرح کرنا چاہیے کہ پڑھی جانے والی چیز قاری کے لیے ایک واردات اور ایک ذاتی تجربہ بن جائے اور اس سے اس کا پورا وجود متاثر ہوجائے۔ یعنی مطالعے سے صرف قاری کے ذہن کو اور صرف، جذبات کو متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ قاری کی روح اور قاری کے دل کو بھی اس کی گرفت میں آجانا چاہیے۔ لیکن یہ کام کیسے ہوتا ہے؟ اس کا کوئی ایسا اصول نہیں جو ہر شخص کے لیے کفایت کرے البتہ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ پڑھی گئی چیز کو بار بار پڑھا جائے، دوسری یہ کہ پڑھی گئی چیز کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے، تیسری یہ کہ پڑھی گئی چیز ہماری گفتگو کا حصہ بن جائے، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے مطالعے بالخصوص کتاب کے مطالعے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ ہم دو ہزار روپے کے جوتے کو سستا اور دو سو روپے کی کتاب کو مہنگا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں کتاب سے زیادہ سستی چیز کا تصور محال ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دو سو روپے میں دیوان غالب خریدتے ہیں تو ہم صرف غالب کی شاعری نہیں اس کی پوری زندگی خرید لیتے ہیں، اور غالب کی پوری زندگی دو سو روپے کیا دو سو ارب روپے میں بھی سستی ہے۔ اس لیے کہ دو سو ارب روپے صرف کرکے بھی غالب کو پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس بات کا شعور بھی مطالعے ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment