Thursday, March 8, 2012

تاریخ اورسیاسی طاقت

انسانی تاریخ میں سیاسی طاقت کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے انسانی فکر و عمل کے اُن گوشوں پر بھی اثر ڈالا ہے جو سیاسی طاقت سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کہنے کو فرعون اور نمرود کی گمراہی ان کی انفرادی گمراہی تھی، لیکن سیاسی طاقت نے فرعون اور نمرود کی گمراہی کو انفرادی گمراہی نہ رہنے دیا اور وہ قوموں کی گمراہی بن گئی۔ حالانکہ انسانی تاریخ اپنی اصل میں گمراہی کی تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ ہدایت اور روشنی کی تاریخ ہے۔ تاہم سیاسی طاقت اگر گمراہ ہوجائے تو وہ پوری قوم کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
عیسائیت کی ابتدائی تاریخ شدائدکی تاریخ ہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑ کا انکارکیا اور رومی سلطنت کی طاقت کو استعمال کرکے اپنے تئیں حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر چڑھادیا۔ یہاں تک کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ عیسائیت روئے زمین سے فنا ہوگئی ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کی کوششوں سے روم کی سلطنت نے عیسائیت کو اختیار کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی عیسائیت دنیا کا بڑا مذہب بن کر ابھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا یورپ عیسائی ہوگیا۔ تاریخ کے ایک مرحلے پر عیسائیت میں مارٹن لوتھر کے زیراثر پروٹسٹنٹ فرقہ پیدا ہوا، اور اس فرقے نے تاجِ برطانیہ کو اپنا اسیر کرلیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا انگلینڈ پروٹسٹنٹ ہوگیا۔ امریکا کے حکمران طبقے میں تاریخ کے ایک مرحلے پر ایوانجلیکل فرقے کا اثر  ہوگیا، چنانچہ امریکا میں ایوانجلیکل چرچ کے اثرات بڑھتے چلے گئے۔
بدھ ازم کو برہمنوں نے اپنے خلاف ایک سازش سمجھا اور اسے ہندوازم کے قلب یعنی اترپردیش عرف یوپی میں کبھی قدم جمانے کا موقع فراہم نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ بدھ ازم پورے بھارت میں بے یار و مددگار ہوگیا۔ البتہ بھارت کی تاریخ کے اہم رہنما اشوک کے بدھ ہوجانے کے بعد بدھ ازم نے بھارت کے ایک وسیع علاقے بالخصوص بھارت کے ’’مضافات‘‘ جیسے ٹیکسلا اورگندھارا میں اپنے اہم مراکز تخلیق کرڈالے۔
اکبر بادشاہ مسلمان تھا مگر اس کا ذہن اوّل و آخر سیاسی تھا، چنانچہ اس کا خیال تھا کہ اپنی سلطنت کو وسیع کرنے اور مستحکم رکھنے کے لیے ہندو اکثریت کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ وہ اسلام ترک نہیں کرسکتا تھا اور ہندو اکثریت کو خوش رکھنا اس کا ’’سیاسی مفاد‘‘ تھا، چنانچہ اس نے اس کی صورت یہ نکالی کہ ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کرلیا جو اسلام اور ہندوازم سمیت کئی مذاہب کی تعلیمات کا ملغوبہ تھا۔ دینِ الٰہی ایک ضلالت اور گمراہی تھا اور وہ اسلام ہی نہیں ہندوازم کی رو سے بھی ایک سنگین مذاق تھا، مگر یہ مذاق اکبر اعظم کا مذاق تھا، چنانچہ دربار اور اس کے زیراثر لوگوں پر اس کا اثر مرتب ہوا۔ اکبر نے اپنے ملغوبہ مذہبی خیالات کے تحت جودھا بائی سے شادی کی، گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی۔ بلاشبہ دینِ الٰہی کے اثرات عوام پر مرتب نہ ہوئے، لیکن اکبر کا دینِ الٰہی اس کے عہدکا تشخص بن گیا۔
اورنگزیب عالمگیرؒ، اکبرکی ضد تھا۔ اس کی شخصیت اول وآخر مذہبی تھی۔ اس کے دربار میں علماء کو غلبہ وتسلط حاصل تھا۔ اورنگزیب نے مسلمانوں کی مذہبی فکرکو فروغ دینے کے لیے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی۔ اس نے مدارس کو فروغ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے دور نے اکبر اور جہانگیرکے زمانے کی لغزشوں کا ازالہ کردیا اور برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو مستحکم بنیاد فراہم کردی۔
ذوالفقارعلی بھٹو سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ تھے۔ ان کے سوشلزم نے پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا اور پاکستان کے تمام نجی ادارے قومیا لیے گئے۔ بھٹو صاحب کے سیکولرازم اور لبرل ازم نے ملک کی سماجی اور ثقافتی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے زمانے کی فلموں، ڈراموں اور فیشن پر بھٹو صاحب کی فکر کی گہری چھاپ تھی۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کے اثر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان سے پہلے شلوار قمیض کی طرف طبقہ امراء کے لوگ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے تھے، لیکن بھٹو صاحب نے شلوار قمیض پہن کر اسے عوام اور خواص سب کا لباس بنادیا۔ بھٹو صاحب کا سیکولرازم، لبرل ازم اور سوشلزم سرسری اور سطحی تھے اس لیے ان کے اثرات بھی سرسری، سطحی اور عارضی ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کی شخصیت مذہبی تھی۔ چنانچہ ان کے دور نے معاشرے میں مذہبی رجحانات کو فروغ دیا۔ انہوں نے نہایت بھونڈے انداز میں نماز اور زکوٰۃ کا نظام متعارف کرایا، لیکن نماز اور زکوٰۃ کے تصورات کی جڑیں چونکہ ہمارے دین اور ہماری تہذیب میں تھیں اس لیے ان کے بھونڈے انداز نے بھی معاشرے میں نماز اور زکوٰۃ کے نظام کو فروغ دیا۔ ان کے دور میں ذرائع ابلاغ میں اسلامی اقدارکو اہمیت حاصل ہوئی۔ پردے کا رجحان ان کے دور میں تیزی کے ساتھ عام ہوا۔ ان کے دور میں جتنی نعت نگاری ہوئی اس کی مثال ان سے پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کے دور میں بعض ترقی پسند شاعر بھی نعت لکھتے ہوئے پائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کا مسئلہ اسلام نہیں اقتدار تھا، لیکن ان کی شخصیت کے مذہبی پہلو نے معاشرے کو بہرحال متاثرکیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ تاریخ میں سیاسی طاقت کو یہ اہمیت کیوں حاصل ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی طاقت ظاہر کی طاقت ہے، اور انسانوں کی عظیم اکثریت صرف ظاہرکو دیکھتی ہے اور صرف ظاہرکو سمجھ سکتی ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی طاقت سے متاثر ہوتی ہے اور اس کے اتباع کو اہم سمجھتی ہے۔ سیاسی طاقت کی ایک دلکشی یہ ہے کہ وہ دلیل کا متبادل بن جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس سیاسی طاقت ہے اس کے پاس علم بھی ہے اور دلیل بھی۔ چنانچہ جس کے پاس سیاسی طاقت ہے وہی حق ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے پاس سیاسی طاقت کیوں ہوتی؟ دنیا بھر میں سیاسی اور عسکری فاتحین کو اکثر اسی بنیاد پر قبولِ عام حاصل ہوا ہے اور اسی بنیاد پر ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ سیاسی طاقت کا کمال یہ ہے کہ یہ جس کے ہاتھ میں آجاتی ہے وہ طاقت کی تمام دوسری صورتوں کو بھی اپنی جانب مائل کرلیتا ہے۔ مثلاً سیاسی طاقت سے دولت کی طاقت بھی ہاتھ آجاتی ہے اور شہرت کی قوت بھی سیاسی طاقت کے قدم چومنے لگتی ہے۔ اس طرح سیاسی طاقت ظاہری طاقت کی اکثر صورتوں کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ سیاسی طاقت میں جادوئی اثر پیدا ہوجاتا ہے، اور جادو کا مقابلہ صرف معجزے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن معجزے کی روایت کا تعلق باطن کی اقلیم سے ہے، اور باطن کی اقلیم کی تفہیم عام نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی طاقت کو چیلنج کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔
www.nasikblog.com

No comments:

Post a Comment