-وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے مقدمات
سے بچانے کے لیے یہ مؤقف اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ سوئس عدالت کو خط نہیں
لکھیں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کو بھی
نظرانداز کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ توہینِ عدالت کے الزام کے تحت جیل
جاسکتے ہیں مگر صدر زرداری سے غداری نہیں کرسکتے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ
بھی کہہ دیا ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھنے سے آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں سیاسی وفاداری ایک نایاب چیز ہے۔ لوگ ایک
دن میں برسوں کی رفاقت کو فراموش کردیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو
یوسف رضا گیلانی صدر زرداری کے ہی ’’وفادار‘‘ نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کی
وفاداری قانون کے ساتھ نہیں ہے، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ساتھ نہیں ہے،
ملک کے آئین کے ساتھ نہیں ہے، مگر صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ہے۔ پاکستان
میں سیاسی بے وفائی کی طویل تاریخ کے تناظر میں بظاہر یہ ایک غیر معمولی
بات ہے، لیکن تجزیہ کیا جائے تو اس عمل میں بھی وفاداری سے زیادہ ’’مفاد‘‘
کا عنصر موجود ہے۔ ملک میں بائیں یا لبرل نظریات کی سیاست کا صرف ایک
مقبول پلیٹ فارم ہے۔ پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی کو ترک کرنے والوںکی تاریخ
یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی میں ہیرو ہوتے ہیں اور پیپلزپارٹی سے نکلتے ہی
زیرو ہوجاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے نکلنے والوں کو کوئی دوسری سیاسی جماعت
نہیں صرف فوجی آمر راس آتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی
آدھی قوت مسلم لیگ تھی اور آدھی قوت پیپلزپارٹی سے نکلے ہوئے لوگ۔ چنانچہ
یوسف رضا گیلانی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آصف علی زرداری سے بے وفائی کا
وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے، سیاسی زندگی کے طویل سفر میں اس کا کوئی فائدہ
نہیں ہوگا۔ چنانچہ حالات کی تمام تر ابتری کے باوجود وہ صدر زرداری سے
چمٹے ہوئے ہیں۔ لیکن اس صورت حال سے ملک کے سیاسی کلچر کے ایک بنیادی پہلو
پر روشنی پڑتی ہے، اور وہ یہ کہ پاکستان کی سیاست میں نظریات موجود ہی
نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے نظریات ہوں تو آدمی نظریات کا وفادار ہوتا ہے۔
نظریات نہ ہوں تو پارٹی کا وفادار ہوتا ہے۔ لیکن اگر پارٹی بھی نہ ہو تو
پھر شخصیات کی وفاداری کے سوا کیا امکان باقی رہ جاتا ہے! یوسف رضا گیلانی
اِس وقت یہی کررہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف یوسف رضا گیلانی تک محدود نہیں۔
پاکستان میں سیاسی مفاد پرستی کی بدترین مثال مسلم لیگ ہے۔ مسلم لیگ
پاکستان بنانے والی جماعت تھی۔ اس اعتبار سے اس جماعت کی جتنی تکریم ہوتی
کم تھی، لیکن مسلم لیگ نے خود کو جتنا بے تکریم کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
جنرل ایوب سیاسی جماعتوں کے تصور سے بھی نفرت کرتے تھے، لیکن ان کی جرنیلی
ایک مقام پرآکر منجمد ہونے لگی تو انہیں سیاسی جماعت بنانے کا خیال آیا،
اور انہوں نے مسلم لیگ کو نیا نام دے کر کنونشن لیگ ایجاد کرلی۔ مسلم لیگ
نے ایک رات میں تاریخ کا لباس اتارکر فوجی لباس زیب تن کرلیا۔ جنرل ضیاء
الحق کو بھی سیاسی جماعتوں سے چڑ تھی، وہ سیاسی جماعتوں کا نام سننے کے
روادار نہیں تھے، انہوں نے انتخابات بھی کرائے تو غیر جماعتی بنیادوں پر۔
مگر ان انتخابات نے انہیں سیاسی جماعت کی ضرورت کا قائل کردیا۔ چنانچہ
انہیں بھی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر
مسلم لیگ بروئے کار آئی۔ اس بار مسلم لیگ کو فوجی وردی پہناکر اس کے گلے
میں جونیجو لیگ کی تختی ٹانگی گئی۔ جنرل پرویزمشرف نے سیاسی جماعتوں پر تو
پابندی نہیں لگائی لیکن ایک نئی مسلم لیگ ایجاد کرنے کے مرض سے جان نہ
چھڑا سکے۔ ان کے دور میں جو مسلم لیگ ایجاد ہوئی اسے (ق) لیگ کا نام
دیاگیا۔ یہ افراد کے ساتھ سیاسی وفاداری کی تین بدترین مثالیں ہیں۔
بدقسمتی سے فوجی آمروں کے دائرے سے باہر بھی مسلم لیگ افراد کی وفاداری کی
دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ پگارا لیگ، قیوم لیگ اور نوازلیگ اس کی افسوسناک
مثالیں ہیں۔
سیاسی وفاداری کی ہولناک ترین مثال ایم کیو ایم ہے۔ ایم کیو ایم کا اصول
صرف ایک ہے: ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘۔ اس صورت حال کا
مفہوم عیاں ہے۔ باقی جماعتوں میں ’’شخصیت پسندی‘‘ ہے، ایم کیو ایم میں
’’شخصیت پرستی‘‘ ہے۔ چنانچہ ایم کیو ایم میں جان و مال کا خوف ایم کیو ایم
کا نظم وضبط بن گیا ہے۔ وفاداری اپنی اصل میں ایک ذہنی آزادی کا نام ہے،
ایسی ذہنی آزادی جس کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، لیکن ایم کیو ایم میں وفاداری
ذہنی غلامی کی انتہا بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس نہ
نظریہ ہے، نہ پارٹی ہے… یہاں تک کہ اس کے پاس ’ً’شخصیت‘‘ بھی نہیں ہے۔ اس
کی وجہ یہ ہے کہ شخصیت کی تعریف ’’ہونے‘‘ سے متعین ہوتی ہے، لیکن ایم کیو
ایم پر غالب شخصیت کی تعریف ’’نہ ہونے‘‘ سے متعین ہوتی ہے۔
پاکستان میں نظریات اور سیاسی جماعتوں کا بحران دائیں بازو میں بھی ہے اور
بائیں بازو میں بھی۔ لیکن بائیں بازو میں نظریات کا بحران زیادہ سنگین ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بائیں بازو کے لوگ ساری زندگی مذہب کے ساتھ اپنے تعلق
کی نوعیت متعین نہیں کرپاتے، اور وہ ساری زندگی ایک نظریاتی خلا اور کم
مائیگی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے یونیورسٹی کے
زمانے سے متعلق ہے۔ بی اے آنرز میں ہمارا ایک ضمنی مضمون سیاسیات تھا۔
سیاسیات کے استاد کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ وہ کلاس میں پانچ سات منٹ
تاخیر سے آتے۔ پھر دس پندرہ منٹ وہ حاضری میں لگادیتے۔ اس طرح پڑھانے کے
لیے ان کے پاس مشکل سے دس بارہ منٹ بچتے تھے۔ لیکن جب مارکسزم پڑھانے کا
مرحلہ آیا تو صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ استادِ مکرم ٹھیک وقت پر کلاس
میں آئے۔ انہوں نے حاضری کا عمل موقوف کردیا اور چار پانچ دن تک انہوں نے
ڈوب کر مارکسزم پڑھایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود مارکسزم کی طرف جھکائو
رکھتے تھے۔ مگر انہوں نے غضب یہ کیا کہ چار پانچ دن میں ایک بار بھی یہ نہ
بتایا کہ مارکس نے مذہب کے بارے میں کیا کہا ہے۔ چنانچہ مارکسزم کے
’’درس‘‘ کے آخری روز ہم نے اُن سے پوچھ لیا کہ مارکس مذہب کے بارے میں کیا
کہتا ہے؟ یہ سوال سنتے ہی وہ مشتعل ہوگئے، کہنے لگے: ’’جو سوال آپ نے مجھ
سے پوچھا ہے وہ تو کسی نے مارکس سے بھی نہیں پوچھا تھا۔‘‘ ان کے مشتعل
ہونے کی وجہ یہ تھی کہ مارکس نے مذہب کو عوام کی افیون کہا ہے، اور اسے
مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ یہ بات اگر استادِ مکرم بتادیتے تو ان کا سارا
مارکسزم ایک سیکنڈ میں بھاپ بن کر اڑ جاتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طلبہ
وطالبات کی عظیم اکثریت مذہب سے محبت کرنے والوں پر مشتمل تھی اور وہ مذہب
کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہ ہوتے۔ اس طرح کا رویہ فردکو زندگی
اور اس کے معاملات میں ایمان دار نہیں رہنے دیتا، اور جب ایمان داری زندگی
سے رخصت ہوجاتی ہے تو نظریات کیا افراد سے وفاداری بھی محال ہوجاتی ہے،
اور پھر انسان صرف مفادات کے لیے زندگی بسرکرتا ہے۔ مفادات زندگی کی اتھلی
ترین سطح کا دوسرا نام ہیں۔ ان میں نہ گہرائی ہوتی ہے نہ کوئی حسن وجمال ۔
No comments:
Post a Comment