زندگی کی معراج بندگی ہے اورقربانی کے بغیر بندگی کا تصورمحال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے بغیرزندگی کو زندگی نہیں کہاجاسکتا۔ اس لیے کہ زندگی جب تک بندگی میں نہ ڈھل جائے اس کا کوئی مفہوم ہے نہ ہی اس میں کوئی جلال وجمال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف قربانی زندگی کومعراج پرپہنچاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام میں قربانی کا مفہوم کیاہے؟۔
اسلام میں قربانی کے تین درجے ہیں۔ اسلام میں قربانی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی اپنی خواہشات ‘آرزوﺅں اورتمناﺅں کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کرلے۔ انسانی نفس خواہشات کا سمندرہے۔ اوریہ سمندر کبھی خشک نہیں ہوتا لیکن نفس کی خواہشات کی پیروی گمراہی ہے۔ چنانچہ نفس کی ہرخواہش پرلبیک نہیں کہاجاسکتا۔ نفس کی صرف وہی خواہشات پوری کی جاسکتی ہیں جن کی مذہب اجازت دیتاہے۔ جو خواہشات مذہب کے دائرے میں نہیں آتیں ان کا ترک ”قربانی“ ہے۔ یہ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ کی جانب سفرکاعمل ہے۔ یہ باطن کا جہاد ہے۔ یہ جہاد اکبرہے۔ یہ باطنی ہجرت ہے ےہ راضی بہ رضا ہونے کی جدوجہدہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں میرنے کہاہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اسلام میں قربانی کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارضی پرمستقل کو فوقیت دی جائے۔ یعنی آخرت کو دنیاپرغلبہ حاصل ہو۔ یعنی جائزحدودکے دائرے میں بھی دنیا سے اپنے تعلق کوکم کیا جائے۔ اورآخرت سے اپنے تعلق کو بڑھایاجائے۔
قربانی کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جنت بھی اس لیے مطلوب و مقصود ہوکہ وہ قرب الٰہی کا مظہرہے اور وہاں انسانوں کو دیدارالٰہی کی نعمت عظمیٰ میسرآئے گی۔ یعنی جنت کی راحتوں اورجنت کی دائمی زندگی پر قرب الٰہی کی تمناکو غلبہ حاصل ہوجائے اور جنت محض جنت کی حیثیت سے مطلوب نہ رہے۔
انسانیت کی تاریخ میں انبیاءومرسلین قربانی کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ حضرت ابراہیمؑ کوسب سے زیادہ عزیزتھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہی کی قربانی طلب کرلی اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنے تئیں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دے دی۔ لیکن قربانی کا مطلب یہاں یہ نہیں ہے کہ انسان ظاہرمیں قربانی دے رہاہومگر اس کا قلب‘ اس کا نفس قربانی پر آمادہ نہ ہو۔ قربانی کا اصل مطلب یہ ہے کہ قربانی دیتے ہوئے انسان کا باطن اور ظاہرہم آہنگ ہو۔حضرت ابراہیمؑ کے آتش نمرود میں ڈالے جانے کا عمل کامل یکسوئی کے ساتھ خود کوقربان کرنے کا عمل ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو منجنیق کے ذریعے آگ میں پھینکے جانے کے عمل کے دوران حضرت جبرائیل ؑ حاضرہوئے اور حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا کہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی مددکروں۔ مگرحضرت ابراہیمؑ نے جوکچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے اپنے رب کے سوا کسی کی مدد درکارنہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ حضرت جبرائیلؑ اللہ ہی کی اجازت سے مدد کے لیے تشریف لائے تھے لیکن حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی مدد کے سواہرمددکو ”ترک“ کردیا۔
رسول اکرم سردارالانبیاءہیں اس لیے آپ کی حیات طیبہ میں قربانیاں عظیم آزمائشوں کی صورت میں ہرطرف بکھری نظرآتی ہیں۔ آپ کی زندگی میں شعب ابی طالب ہے۔ آپ اور آپ کا خاندان یہاں ساڑھے تین سال تک محبوس رہا۔ اس دوران درختوں کے پتے اور درختوں کی جڑیں ابال کرکھانے کی نوبت آگئی اس لیے کہ کافروں اورمشرکوں نے آپ تک غذا کے پہنچنے کے تمام راستے مسدودکردیے تھے۔ آپ کی حیات طیبہ میں جنگ احد ہے۔ جس میں بعض صحابہ کرام کی جانب سے نظم وضبط میں کمزوری کے باعث مسلمانوںکو شکست ہوگئی۔ حضور اکرم کے دودندان مبارک شہید ہوگئے۔ آپ کی حیات طیبہ میں طائف کا سفرہے جس کے ایک دن کو آپ نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن کہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی تبلیغ سے ایک شخص بھی ایمان نہ لایا بلکہ الٹا اہل طائف آپ پرٹوٹ پڑے۔ آپ کے نعلین مبارک خون سے بھرگئے۔ گلی محلے کے لڑکے زبان اور حرکات وسکنات سے آپ کو الگ اذیت دے رہے تھے۔ آپ کی حیات طیبہ میں ہجرت ہے۔ ہجرت کا مطلب ایک طویل زندگی کے ماحول اورفضاسے یکسربے تعلق ہوجاناہے۔ رسول اکرم کوکعبتہ اللہ کی وجہ سے مکہ معظمہ سے شدید محبت تھی۔آپ کی بیشترزندگی مکے میں بسرہوئی تھی۔ آپ کی بیشتریادیں مکے سے وابستہ تھیں۔ آدمی شہریا ملک بدلتاہے تو اس کے خوابوں تک میں طویل عرصے تک پرانا شہراور ملک آتارہتاہے۔
چنانچہ ہجرت ایک عظیم الشان قربانی ہے اور جیسی جس کی قربانی ہوتی ہے ویساہی اس کا صلہ اور ویسا ہی اس کا مقام اور مرتبہ ہوتاہے۔
اسلام میں شہیدکا مقام یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتاہے۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رزق فراہم کیاجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہید شعوری طورپراللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان کا سودا کرتاہے۔ شہادت یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص خداکے لیے نہ مرنے کی آرزورکھتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ بلکہ شہادت یہ ہے کہ انسان گھرسے ارادہ کرکے نکلے کہ اللہ کے لیے اس کی راہ میں جان دینی ہے۔ اللہ کے لیے شعوری طورپر جان دینے کا فیصلہ ہی انسان کی موت کو شہادت بناتاہے۔ اسی فیصلے سے جان دینے کا عمل قربانی بنتاہے اور انسان بڑے اجرکا مستحق ہوجاتاہے۔
زندگی کے دوسرے درجوں اور دائروں میں بھی قربانی کا عمل فضیلت کاباعث ہے۔ مثال کے طورپر ہمارے دین میں ماں کا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ بلندمقام ماںکو یونہی عطا نہیں ہوگیا۔ عورت نو ماہ تک بطن مادرمیں بچے کو پالتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے عمل کے دوران عورت زندگی اور موت کے درمیان سفرکرتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں بچے کو طویل عرصے تک دودھ پلاتی ہے وہ بچے پر اپنی سیکڑوں نیندیں اور راحتیں قربان کرتی ہے۔ وہ ایک طویل عرصے کے لیے بچے کا ماحول اس کی فضا اس کی آب وہوا‘ اس کا موسم اس کی ڈھال‘ اس کی تلوار اوراس کا سائبان بنی رہتی ہے۔ تب کہیں جاکر وہ ماں کہلانے کی مستحق بنتی ہے اور جنت اس کے قدموں تلے آتی ہے۔
بڑی سطح کے تخلیقی عمل کے بارے میں میرتقی میرنے دوبنیادی باتیں کہی ہیں۔ میرکی پہلی بات یہ ہے۔
ہم کوشاعرنہ کہو میرکہ صاحب ہم نے
درد وغم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میرکا یہ شعربعض نسخوں میں دوسری طرح بھی آیاہے۔ لیکن یہاں اہم بات یہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میرنے تخلیقی عمل کے بارے میں دوسری بات کیاکہی ہے؟ میرکی دوسری بات یہ ہے۔
بڑے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمرمیں ناکامیوں سے کام لیا
میرکے پہلے شعرکا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو میرکی عظیم شاعری کہاجاتاہے وہ میرکے غموں‘ میرکے دکھوں اورمیرکے اضطراب کا حاصل ہے۔ لیکن یہ کام میرنے کیسے کیا؟ اس کا جواب میرنے یہ دیا ہے کہ میں نے ناکامیوں سے کام لینا سیکھاہے۔ یعنی اس نے دکھ کو محض دکھ اور اضطراب کو محض اضطراب نہیں رہنے دیا بلکہ اسے آگہی میں ڈھال لیا۔ اس لیے ایک تناظرتخلیق کیا۔ اس کو زندگی اورکائنات کی تحقیق کا ذریعہ بنالیا۔ یہ زہرسے ترقیاق بنانے کا عمل ہے۔ عیب سے ہنر کشیدکرنے کا سلسلہ ہے۔ مگر یہ کام کرنے والے میرپہلے یا آخری شخص نہیں ہیں۔ غالب کی زندگی بھی مصائب سے پرتھی۔ ان کے یکے بعد دیگرے پانچ بچے ہوئے اورتمام کے تمام فوت ہوگئے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو ان کے عہدنے تسلیم کرکے نہ دیا۔ 1857ءکی جنگ آزادی نے ان کی مالی اور ذہنی حالت دونوں کو متاثرکیا یہاں تک کہ انہوں نے کہہ دیا۔
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنرمیں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا
زندگی اپنی جو اس طرح سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب کا یہ رنج والم بے پنہاں ہے اورغالب کی شاعری ایک طرح سے اس کا ”ازالہ“ ہے۔یعنی غالب کی شاعری وہ بصیرت ہے جو اسے رنج والم نے فراہم کی ہے۔ اس حوالے سے اقبال کی شخصیت کا تجزیہ بھی دشوارنہیں۔اقبال مسلمانوںکے ”حال“ سے حد درجہ مایوس اورمضطرب تھے اور ان کا دکھ انفرادی سے زیادہ اجتماعی تھا لیکن سوال یہ تھا کہ اس دکھ پرکیسے غالب آیاجائے؟ اقبال کے نزدیک اس کا صرف ایک علاج تھا۔ ماضی کی بازیافت‘ اس لیے انہوں نے کہاہے؟
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوﺅںکی جستجو“۔
اس کے معنی یہ ہیںکہ اقبال کا اجتماعی دکھ ہی انہیں ماضی کی بازیافت کی جانب لے گیا۔ یعنی انہوں نے اپنی شخصیت کو اجتماعی دکھ کی آگ میں جلایا تو وہ شاعری تخلیق ہوئی جسے اقبال کی شاعری کہاجاتاہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیاہیںکہ مصائب ومشکلات اور رنج والم بھی انسان کے لیے قربانی کا تجربہ تخلیق کرتے ہیں لیکن تکلیف دہ تجربات جہاں انسان سے بہت کچھ چھین لیتے ہیں وہیں اسے وہ کچھ عطابھی کردیتے ہیں جسے وہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیںکرسکتا۔
www.nasikblog.com
اسلام میں قربانی کے تین درجے ہیں۔ اسلام میں قربانی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی اپنی خواہشات ‘آرزوﺅں اورتمناﺅں کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کرلے۔ انسانی نفس خواہشات کا سمندرہے۔ اوریہ سمندر کبھی خشک نہیں ہوتا لیکن نفس کی خواہشات کی پیروی گمراہی ہے۔ چنانچہ نفس کی ہرخواہش پرلبیک نہیں کہاجاسکتا۔ نفس کی صرف وہی خواہشات پوری کی جاسکتی ہیں جن کی مذہب اجازت دیتاہے۔ جو خواہشات مذہب کے دائرے میں نہیں آتیں ان کا ترک ”قربانی“ ہے۔ یہ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ کی جانب سفرکاعمل ہے۔ یہ باطن کا جہاد ہے۔ یہ جہاد اکبرہے۔ یہ باطنی ہجرت ہے ےہ راضی بہ رضا ہونے کی جدوجہدہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں میرنے کہاہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اسلام میں قربانی کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارضی پرمستقل کو فوقیت دی جائے۔ یعنی آخرت کو دنیاپرغلبہ حاصل ہو۔ یعنی جائزحدودکے دائرے میں بھی دنیا سے اپنے تعلق کوکم کیا جائے۔ اورآخرت سے اپنے تعلق کو بڑھایاجائے۔
قربانی کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جنت بھی اس لیے مطلوب و مقصود ہوکہ وہ قرب الٰہی کا مظہرہے اور وہاں انسانوں کو دیدارالٰہی کی نعمت عظمیٰ میسرآئے گی۔ یعنی جنت کی راحتوں اورجنت کی دائمی زندگی پر قرب الٰہی کی تمناکو غلبہ حاصل ہوجائے اور جنت محض جنت کی حیثیت سے مطلوب نہ رہے۔
انسانیت کی تاریخ میں انبیاءومرسلین قربانی کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ حضرت ابراہیمؑ کوسب سے زیادہ عزیزتھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہی کی قربانی طلب کرلی اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنے تئیں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دے دی۔ لیکن قربانی کا مطلب یہاں یہ نہیں ہے کہ انسان ظاہرمیں قربانی دے رہاہومگر اس کا قلب‘ اس کا نفس قربانی پر آمادہ نہ ہو۔ قربانی کا اصل مطلب یہ ہے کہ قربانی دیتے ہوئے انسان کا باطن اور ظاہرہم آہنگ ہو۔حضرت ابراہیمؑ کے آتش نمرود میں ڈالے جانے کا عمل کامل یکسوئی کے ساتھ خود کوقربان کرنے کا عمل ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو منجنیق کے ذریعے آگ میں پھینکے جانے کے عمل کے دوران حضرت جبرائیل ؑ حاضرہوئے اور حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا کہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی مددکروں۔ مگرحضرت ابراہیمؑ نے جوکچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے اپنے رب کے سوا کسی کی مدد درکارنہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ حضرت جبرائیلؑ اللہ ہی کی اجازت سے مدد کے لیے تشریف لائے تھے لیکن حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی مدد کے سواہرمددکو ”ترک“ کردیا۔
رسول اکرم سردارالانبیاءہیں اس لیے آپ کی حیات طیبہ میں قربانیاں عظیم آزمائشوں کی صورت میں ہرطرف بکھری نظرآتی ہیں۔ آپ کی زندگی میں شعب ابی طالب ہے۔ آپ اور آپ کا خاندان یہاں ساڑھے تین سال تک محبوس رہا۔ اس دوران درختوں کے پتے اور درختوں کی جڑیں ابال کرکھانے کی نوبت آگئی اس لیے کہ کافروں اورمشرکوں نے آپ تک غذا کے پہنچنے کے تمام راستے مسدودکردیے تھے۔ آپ کی حیات طیبہ میں جنگ احد ہے۔ جس میں بعض صحابہ کرام کی جانب سے نظم وضبط میں کمزوری کے باعث مسلمانوںکو شکست ہوگئی۔ حضور اکرم کے دودندان مبارک شہید ہوگئے۔ آپ کی حیات طیبہ میں طائف کا سفرہے جس کے ایک دن کو آپ نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن کہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی تبلیغ سے ایک شخص بھی ایمان نہ لایا بلکہ الٹا اہل طائف آپ پرٹوٹ پڑے۔ آپ کے نعلین مبارک خون سے بھرگئے۔ گلی محلے کے لڑکے زبان اور حرکات وسکنات سے آپ کو الگ اذیت دے رہے تھے۔ آپ کی حیات طیبہ میں ہجرت ہے۔ ہجرت کا مطلب ایک طویل زندگی کے ماحول اورفضاسے یکسربے تعلق ہوجاناہے۔ رسول اکرم کوکعبتہ اللہ کی وجہ سے مکہ معظمہ سے شدید محبت تھی۔آپ کی بیشترزندگی مکے میں بسرہوئی تھی۔ آپ کی بیشتریادیں مکے سے وابستہ تھیں۔ آدمی شہریا ملک بدلتاہے تو اس کے خوابوں تک میں طویل عرصے تک پرانا شہراور ملک آتارہتاہے۔
چنانچہ ہجرت ایک عظیم الشان قربانی ہے اور جیسی جس کی قربانی ہوتی ہے ویساہی اس کا صلہ اور ویسا ہی اس کا مقام اور مرتبہ ہوتاہے۔
اسلام میں شہیدکا مقام یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتاہے۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رزق فراہم کیاجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہید شعوری طورپراللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان کا سودا کرتاہے۔ شہادت یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص خداکے لیے نہ مرنے کی آرزورکھتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ بلکہ شہادت یہ ہے کہ انسان گھرسے ارادہ کرکے نکلے کہ اللہ کے لیے اس کی راہ میں جان دینی ہے۔ اللہ کے لیے شعوری طورپر جان دینے کا فیصلہ ہی انسان کی موت کو شہادت بناتاہے۔ اسی فیصلے سے جان دینے کا عمل قربانی بنتاہے اور انسان بڑے اجرکا مستحق ہوجاتاہے۔
زندگی کے دوسرے درجوں اور دائروں میں بھی قربانی کا عمل فضیلت کاباعث ہے۔ مثال کے طورپر ہمارے دین میں ماں کا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ بلندمقام ماںکو یونہی عطا نہیں ہوگیا۔ عورت نو ماہ تک بطن مادرمیں بچے کو پالتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے عمل کے دوران عورت زندگی اور موت کے درمیان سفرکرتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں بچے کو طویل عرصے تک دودھ پلاتی ہے وہ بچے پر اپنی سیکڑوں نیندیں اور راحتیں قربان کرتی ہے۔ وہ ایک طویل عرصے کے لیے بچے کا ماحول اس کی فضا اس کی آب وہوا‘ اس کا موسم اس کی ڈھال‘ اس کی تلوار اوراس کا سائبان بنی رہتی ہے۔ تب کہیں جاکر وہ ماں کہلانے کی مستحق بنتی ہے اور جنت اس کے قدموں تلے آتی ہے۔
بڑی سطح کے تخلیقی عمل کے بارے میں میرتقی میرنے دوبنیادی باتیں کہی ہیں۔ میرکی پہلی بات یہ ہے۔
ہم کوشاعرنہ کہو میرکہ صاحب ہم نے
درد وغم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میرکا یہ شعربعض نسخوں میں دوسری طرح بھی آیاہے۔ لیکن یہاں اہم بات یہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میرنے تخلیقی عمل کے بارے میں دوسری بات کیاکہی ہے؟ میرکی دوسری بات یہ ہے۔
بڑے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمرمیں ناکامیوں سے کام لیا
میرکے پہلے شعرکا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو میرکی عظیم شاعری کہاجاتاہے وہ میرکے غموں‘ میرکے دکھوں اورمیرکے اضطراب کا حاصل ہے۔ لیکن یہ کام میرنے کیسے کیا؟ اس کا جواب میرنے یہ دیا ہے کہ میں نے ناکامیوں سے کام لینا سیکھاہے۔ یعنی اس نے دکھ کو محض دکھ اور اضطراب کو محض اضطراب نہیں رہنے دیا بلکہ اسے آگہی میں ڈھال لیا۔ اس لیے ایک تناظرتخلیق کیا۔ اس کو زندگی اورکائنات کی تحقیق کا ذریعہ بنالیا۔ یہ زہرسے ترقیاق بنانے کا عمل ہے۔ عیب سے ہنر کشیدکرنے کا سلسلہ ہے۔ مگر یہ کام کرنے والے میرپہلے یا آخری شخص نہیں ہیں۔ غالب کی زندگی بھی مصائب سے پرتھی۔ ان کے یکے بعد دیگرے پانچ بچے ہوئے اورتمام کے تمام فوت ہوگئے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو ان کے عہدنے تسلیم کرکے نہ دیا۔ 1857ءکی جنگ آزادی نے ان کی مالی اور ذہنی حالت دونوں کو متاثرکیا یہاں تک کہ انہوں نے کہہ دیا۔
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنرمیں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا
زندگی اپنی جو اس طرح سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب کا یہ رنج والم بے پنہاں ہے اورغالب کی شاعری ایک طرح سے اس کا ”ازالہ“ ہے۔یعنی غالب کی شاعری وہ بصیرت ہے جو اسے رنج والم نے فراہم کی ہے۔ اس حوالے سے اقبال کی شخصیت کا تجزیہ بھی دشوارنہیں۔اقبال مسلمانوںکے ”حال“ سے حد درجہ مایوس اورمضطرب تھے اور ان کا دکھ انفرادی سے زیادہ اجتماعی تھا لیکن سوال یہ تھا کہ اس دکھ پرکیسے غالب آیاجائے؟ اقبال کے نزدیک اس کا صرف ایک علاج تھا۔ ماضی کی بازیافت‘ اس لیے انہوں نے کہاہے؟
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوﺅںکی جستجو“۔
اس کے معنی یہ ہیںکہ اقبال کا اجتماعی دکھ ہی انہیں ماضی کی بازیافت کی جانب لے گیا۔ یعنی انہوں نے اپنی شخصیت کو اجتماعی دکھ کی آگ میں جلایا تو وہ شاعری تخلیق ہوئی جسے اقبال کی شاعری کہاجاتاہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیاہیںکہ مصائب ومشکلات اور رنج والم بھی انسان کے لیے قربانی کا تجربہ تخلیق کرتے ہیں لیکن تکلیف دہ تجربات جہاں انسان سے بہت کچھ چھین لیتے ہیں وہیں اسے وہ کچھ عطابھی کردیتے ہیں جسے وہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیںکرسکتا۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment