Tuesday, April 24, 2012

سیاست ‘نظریات اور ذاتیات

انفرادی معاملات ہوں یا سیاست کا دائرہ‘ زندگی میں اصل چیز نظریات ہیں۔ جب تک انسان کی زندگی نظریات کے تابع ہوتی ہے اس میں تہذیب بھی ہوتی ہے شائستگی بھی۔ تفکر بھی ہوتا ہے اور اجتماعیت بھی۔ لیکن زندگی نظریات سے محروم ہوتے ہی تہذیب وشائستگی سے محروم تفکر سے عاری اور اجتماعیت سے بیگانہ ہوکر ذاتیات کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔
اقبال کی فکر میں تنقید کا مقام بنیادی ہے۔ اقبال نے مغرب پر تنقید کی ہے۔ سوشلزم کی تکذیب کی ہے۔ ملاّ پر طنز کیا ہے۔ صوفی کو ملامت کر کے یہاں تک کے خاکم بدہن کہہ کر اللہ سے بھی شکوہ کرڈالا ہے۔ لیکن مغرب اقبال کا ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔ سوشلزم سے انہیں کوئی ذاتی شکایت نہیں تھی۔ ملّا اور صوفی ان کے یہاں افراد نہیں کچھ رجحانات کی علامت ہیں۔ ہماری تہذیب اور ہمارے ادب میں خدا سے شکوے کی کوئی روایت موجود نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے شکوے پر سخت اعتراضات کیے لیکن وہ یہ دیکھنے سے قاصر رہے کہ اقبال کا شکوہ ذاتی شکوہ نہیں ہے بلکہ سلیم احمد کے الفاظ میں اقبال نے شکوہ میں مسلمانوں کے اجتماعی دل کے چورکو زبان عطا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں تخلیق اور فکر کی سطح انتہائی بلند ہے اور اقبال اپنی تنقید میں تہذیب وشائستگی کے اعلیٰ معیارات کو پکڑے کھڑے ہیں اور ان کی تنقید میں ذاتیات کے عنصر کو تلاش کرنا محال ہے۔ اقبال نے اپنے ایک خط میں حسین احمد مدنی پر سخت تنقید کی ہے اور بعض لوگوں کو یہ تنقید توہین آمیز محسوس ہوتی ہے مگر اقبال نے اس قطعے میں بنیادی بات یہ کہی ہے کہ قومیں حسین احمد مدنی کے خیال کے برعکس اوطان سے نہیں عقیدے سے بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال کی تنقید سخت ہونے کے باوجود نظریات پر کھڑی ہے۔ اس کے برعکس اقبال پر تنقید کرنے والوں نے اکثر ذاتی بنیادوں پر اقبال کو نشانہ بنایا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں کی تکلیف یہ ہے کہ اقبال ”اہل زبان“ نہیں تھے۔ بعض لوگوں کو خیال ہے کہ اقبال کی شاعری‘ شاعری تھوڑی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو ”نظم“ کردیا ہے۔ فیض صاحب نے اقبال کی شاعری کو ”موچی دروازے کی شاعری“ قرار دیا ہے۔ یعنی ان کا خیال یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ”آفاقیت“ نہیں ہے۔ ان خیالات کو دیکھا جائے تو ان کا نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ مولانا مودودیؒ کا بھی ہے۔ مولاناؒ نے ایک جانب عصر کے غالب نظریات کو رد کیا ہے اور دوسری جانب دین کی مروج تعبیرات کی ناکافیتوں کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن مولانا کے یہاں ذاتی حوالے ناپید ہیں۔ مولانا نے جو کچھ کہا ہے نظریات اور دلائل کی بنیاد پر کہا ہے۔ ورنہ مولانا کو نہ کسی کے مکتب سے کچھ لینا دینا تھا نہ مدرسے سے انہیں کوئی سروکار تھا۔ ان کی تنقید کسی کے جسّے اور دستار پر بھی نہیں تھی۔ صرف ایک جگہ مولانا کا لہجہ حقیقی معنوں میں تلخ ہوا ہے۔ مگر اس کی معقول وجہ تھی۔ مولانا وحید الدین نے مولانا کی تعبیر دین پر بنیادی اعتراضات کیے ہیں اور تاثر دیا ہے کہ مولانا نے اسلام کے بنیادی تصورات کو غلط سمجھا ہے۔ مولانا وحید الدین نے یہ اعتراضات خطوط کی صورت میں مولانا کو بھیجے اور مولانا نے ان کا جواب بھی دیا مگر مولانا وحید الدین اپنے اعتراضیات پر اصرار کرتے رہے۔ اس پر مولانا قدرے ناراض ہوئے اور اس کا جواز یہ تھا کہ انسان اعتراض کا جواب ایک دوبار ہی دے سکتا ہے وہ اس سلسلہ میں کسی سے مسلسل معرکہ آرائی نہیں کرسکتا اور مولانا وحید الدین یہی چاہتے تھے۔ البتہ مولانا کے خلاف ذاتیات کا استعمال زیادہ ہوا۔ کسی نے انہیں یہودی کہا۔ کسی نے سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا۔ کسی نے انہیں غیرمقصد باور کرایا۔ کسی کا خیال تھا کہ مولانا اہلحدیث ہیں۔ اورکسی کا خیال تھا کہ مولانا کچھ بھی نہیں ہیں بس ایک گمراہ شخص ہیں۔ اس تنقید سے ظاہر ہے کہ تنقید کرنے والوں میں سے کسی کے پاس حقیقی معنوں میں نظریات کا سرمایہ نہیں تھا۔
پاکستان کی سیاست میں نظریات کی کارفرمائی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ تک موجود رہیں۔ بھٹو صاحب کی فکر اور شخصیت میں ذاتیات کو کافی عمل دخل تھا۔ وہ جلسوں جلوسوں میں اپنے حریفوں کا مذاق اُڑاتے رہتے تھے جس سے ان کی تقریروں میں بارہ مصالحے کی چاٹ کا ذائقہ پیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب کی شخصیت نظریات سے محروم شخصیت نہیں تھی۔ چنانچہ ان کا زمانہ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش کا زمانہ تھا۔ اسی کشمکش میں اصل چیز نظریات تھے۔ چنانچہ حریفوں کو اپنے ہی نہیں اپنے حریف کے نظریات کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھنا اور سوچنا پڑتا۔ یہ صورتحال اطمینان بخش تو نہیں تھی البتہ غنیمت تھی۔ لیکن بھٹو صاحب کے منظر سے ہٹتے ہی نظریاتی کشمکش پس منظر میں چلی گئی اور معاشرہ زیادہ سے زیادہ ذاتیات میں اُلجھتا چلا گیا۔ اس کی ایک صورت یہ تھی کہ ملک میں یا تو بھٹو خاندان کے حامی تھے یا اس کے مخالف‘ ملک میں یا تو جنرل ضیاءالحق سے محبت کرنے والے تھے یا ان سے نفرت کرنے والے۔
اس صورتحال نے پاکستان کی سیاست میں ذاتیات کو بنیادی بنا دیا ہے۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ ایک جانب میاں شہباز شریف ہیں جو صدر آصف علی زرداری کو علی بابا چالیس چور کہہ رہے ہیں۔ دوسری طرف صدر آصف زرداری ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ ان کے پاس شریف برادران کی ”چمک“ کا علاج ہے اور یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ شریف برادران کی گردن سے سریا کیسے نکالا جاسکتا ہے؟ تجزیہ کیا جائے تو یہ ذاتیات کی کُشتی ہے اور اس میں ملک وقوم کے لیے کیا خود شریف برادران اور آصف علی زرداری کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ اس لیے کہ ذاتیات کولہو کے بیل کا سفر ہے۔ کولہو کا بیل سارا دن چلتا ہے اور کہیں نہیں پہنچتا۔ لیکن کولہو کے بیل کی حرکت سے کم ازکم تیل تو ہاتھ آتا ہے۔ ذاتیات کی سیاست سے سب لوگ صرف پسینہ پسینہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو نظریات کی بنیاد فراہم کی جائے۔ لیکن یہ کام پاکستان کیا امریکا میں بھی آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کو نظریات کے حوالے سے دیکھنے کا رجحان پوری دنیا میں کمزور پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں ری پبلکن پارٹی کو قدامت پسند اور ڈیموکریٹک پارٹی کو لبرل نظریات کی حامل جماعت سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان مماثلتیں زیادہ ہیں امتیازات کم ہیں۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ جماعتیں اپنے امتیازات کو سلیقے سے بیان کرتی ہیں اور ذاتیات سے بلند ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment