غریب وہ نہیں ہے جس کے پاس مال و اسباب نہیں ہے۔ غریب وہ ہے جس کے پاس امید نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ امید ناممکن کے اندھیروں میں ممکن کا آفتاب ہے۔ بے آب و گیاہ زمین کے لیے برسات کی پہلی بارش ہے۔ بھٹکے ہوئے انسان کے لیے راہ کا سراغ ہے۔ ناکامیوں کے جلسے میں کامیابی کی صدارتی تقریر ہے۔
امید کے دو اصطلاحی معنیٰ ہیں: (1) اللہ سے درگزر اور مغفرت کی توقع رکھنا۔ (2) زندگی میں کشادگی و فراوانی کا انتظار اور مصائب و آلام سے نجات کی توقع رکھنا۔
انسان ظالم ہے، جاہل ہے، خطاکار ہے، گناہ گار ہے، انسان کی خطائیں اور اس کے گناہ بڑھ جاتے ہیں تو شیطان کا کام آسان ہونے لگتا ہے۔ وہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ اب واپسی کا کوئی امکان ہے نہ نجات کی کوئی صورت۔ اب صرف خطاﺅں اور گناہوں پر اصرار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خطاﺅں اور گناہوں کو خوشنما بنادیتا ہے، ان کی عزت کو بڑھادیتا ہے، ان کے دنیاوی فائدوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خطاﺅں اور گناہوں کو عقلی دلائل فراہم کرکے انہیں ”فلسفیانہ چیز“ بنادیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ جو ہونا تھا ہوچکا، اور جو کچھ ہوچکا اس کے سوا کچھ اور ہونے کا امکان نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی مایوسی سے مطمئن ہونا سیکھ لیتا ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کی تباہی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کی آخرت تو تباہ ہوتی ہی ہے، اکثر دنیا بھی اس کے ہاتھ نہیں آتی، اور آتی ہے تو ہاتھ میں رہتی نہیں۔ البتہ جو شخص اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہوتا، جس کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی ہے وہ ہزاروں گناہ کرکے بھی توبہ کے ذریعے خدا کی طرف، مغفرت اور نجات کی جانب پلٹ آتا ہے۔
انسان کی زندگی مصائب و آلام میں گھری ہوئی ہے، لیکن مصائب و آلام بھی خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات مصائب و آلام کی کثرت، شدت اور ان کا تسلسل انسان کو اس خیال سے دوچار کردیتا ہے کہ مصائب و آلام کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور زندگی میں کبھی آسانی، کشادگی اور فراخی کا دور نہیں آئے گا۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انبیا و مرسلین تک کو سخت مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں جب کیڑے پڑگئے تو ان کے بھائی ان کے پاس آئے اور کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ تُو نے کچھ ایسے گناہ کیے ہیں جن کی پاداش میں تُو اس حالت کو پہنچا ہے۔ یہ سن کر حضرت ایوب علیہ السلام رو دیئے اور اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ تُو تو جانتا ہے کہ یہ سزا نہیں ہے، آزمائش ہے۔ عام آدمی مصائب و مشکلات سے گھبرا جاتا ہے، لیکن جن لوگوں کے سینوں میں امید کی شمع روشن ہوتی ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ رات کے بعد دن ضرور نکلتا ہے۔ مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ بارش سمندر، دریا اور میدان پر ہی نہیں، صحرا پر بھی برس کر رہتی ہے۔ لیکن امید کی یہ نعمت انسان کو اللہ اور اس کے دین کے ساتھ تعلق سے جس طرح فراہم ہوتی ہے کسی اور چیز سے اس طرح فراہم نہیں ہوسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کا تصور اور مذہب کس طرح امید پیدا کرتا ہے؟
ہمارے دین میں خدا کا تصور یہ ہے کہ وہ خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، رحیم ہے، کریم ہے، غفور ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کر ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنے بندوں کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کرتا ہے تو یہ بھی اس کی ایک عنایت اور اس کا ایک انعام ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے بندوں کے مقامات کو بلند کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے دائرے میں زندگی گزارنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ انسان کو سب کچھ دنیا میں نہیں ملے گا، کیونکہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے، چنانچہ انسان کو وہاں وہ کچھ ملے گا جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں بھی کچھ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام امیدیں پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دین کو آسان بناکر پیش کرو، اسے مشکل بناکر پیش نہ کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسانی سے امید پیدا ہوتی ہے اور مشکل سے مایوسی جنم لیتی ہے۔ آسانی سے شوق اور ذوق نمودار ہوتا ہے، مشکل سے جبر کی صورت ابھرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ آپ بشیر ہیں، دوسرا یہ کہ آپ نذیر ہیں۔ بشیر بشارت دینے والے کو کہتے ہیں اور نذیر ڈرانے والے کو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بشارت پوری انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان امید ہے، لیکن آپ کے ڈرانے کا عمل بھی امید ہی کی ایک صورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اچھائی اور برائی میں انتخاب کی آزادی دی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب انسان برائی اختیار کرتا ہے تو اس کی توانائی، وقت اور توجہ کا ایک حصہ برائی کی نذر ہوجاتا ہے، لیکن اگر اسے برائی کے نقصانات اور مضمرات سے ڈرا دیا جائے تو اس کی وہ توانائی، وقت اور توجہ جو برائی پر صرف ہورہی تھی نیکی کرنے پر صرف ہونے لگے گی۔ چنانچہ اس کے لیے امید کے امکانات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن انسان میں امید پیدا کرنے کے حوالے سے اسلام کی صلاحیت ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔
اس کی ایک مثال اقبال ہیں، جنہوں نے کہا ہے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اقبال جس زمانے میں شاعری کررہے تھے وہ مسلمانوں کا عہدِ غلامی تھا۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ جنگ ِآزادی میں شکست کھا چکی تھی۔ اس کو انگریزوں کے تسلط اور ہندوﺅں کی اکثریت کا خوف لاحق تھا۔ وہ اپنے حال اور مستقبل سے مایوس تھی۔ ایسی کیفیت میں اجتماعیت کا شعور زائل ہوجاتا ہے اور افراد اپنی شخصیت، خاندان یا گروہ کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ امید کی روشنی ٹمٹماتے ہوئے دیے کی لَو میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال میں اقبال نے برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کو وہ بات بتائی جو بتانے کے لائق تھی۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ وہ خود کو ملت اور امت کے تصور سے وابستہ کریں۔ لیکن ایسا کرنے سے ہوتا کیا ہے؟ ایسا کرنے سے ملت کے وسائل فرد کے وسائل بن جاتے ہیں۔ ملت کی صلاحیتیں فرد کی صلاحیتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور ملت کے امکانات فرد کے امکانات بن کر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ فرد کی زندگی میں اگر امید کا ایک چراغ روشن ہوتا ہے تو ملت سے وابستہ ہوتے ہی اس کی زندگی میں امیدوں کے ہزاروں چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ اقبال اسلام کے علم اور مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کے مطالعے سے جانتے تھے کہ مسلمانوں کا زوال عارضی ہے اور جلد ہی وہ دور آئے گا جو امتِ مسلمہ کے عروج کا دور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ایک والہانہ پن کے ساتھ کہا
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
........٭٭٭........
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
یہی وجہ تھی کہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کی امیدوں کو بڑھایا بھی اور انہیں تابناکی بھی عطا کی۔ اس کا ”مقامی نتیجہ“ یہ نکلا کہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ میں ایک علیحدہ ملک کے قیام کے لیے جوش و جذبہ بھی پیدا ہوا اور ان میں اس حوالے سے غیر معمولی تحرک بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اسلام فرد کو صرف امت کے تصور تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ اسلام کہتا ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے پوری انسانیت ایک ہی کنبہ ہے۔ چنانچہ وہ فرد کے امکانات کو پوری انسانیت کے امکانات تک پھیلا دیتا ہے۔
اس کے برعکس سیکولرازم کا تجربہ یہ ہے کہ اس کی کائنات میں نہ خدا کا وجود ہے، نہ مذہب کا، نہ نبوت کا۔ چنانچہ انسان کی امیدیں صرف اپنے جیسے انسانوں سے وابستہ ہیں۔ لیکن لامذہبیت کے دائرے میں انسانیت اپنا تشخص قوم کے حوالے سے متعین کرتی ہے، چنانچہ اس دائرے میں ایک فرد کی امیدیں زیادہ سے زیادہ ایک قوم کی امیدیں ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ خدا اور مذہب کو درمیان سے نکالتے ہی انسانوں کے تعلقات مقابلے اور مسابقت کے تعلقات بن جاتے ہیں، اور مقابلے اور مسابقت کی دنیا خودغرضی کی دنیا ہے، اور خودغرضی فرد پرستی کی ایک بدترین صورت ہے۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ قوم پرستی کے دائرے میں ایک فرد کے امکانات تصور ہی کی سطح پر پوری قوم کے امکانات ہوتے ہیں۔ عملاً فرد کے ذاتی امکانات ہی اس کے اصل امکانات ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مادی اعتبار سے ترقی یافتہ معاشروں میں امیدیں کم ہیں مایوسیاں زیادہ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان معاشروں میں اجتماعیت کو حقیقی بنیاد فراہم کرنے والا ادارہ یعنی خاندان مسلسل کمزور پڑرہا ہے اور خودکشی سمیت مختلف جرائم کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہر جرم بالخصوص خودکشی امید کی کمی کا اشتہار ہے، اور اس پر قابو پانے کی واحد صورت یہ ہے کہ معاشرے میں امیدوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور امیدوں کو بیک وقت روحانی اور مادی دونوں پہلوﺅں سے متعلق کیا جائے۔
امید کے دو اصطلاحی معنیٰ ہیں: (1) اللہ سے درگزر اور مغفرت کی توقع رکھنا۔ (2) زندگی میں کشادگی و فراوانی کا انتظار اور مصائب و آلام سے نجات کی توقع رکھنا۔
انسان ظالم ہے، جاہل ہے، خطاکار ہے، گناہ گار ہے، انسان کی خطائیں اور اس کے گناہ بڑھ جاتے ہیں تو شیطان کا کام آسان ہونے لگتا ہے۔ وہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ اب واپسی کا کوئی امکان ہے نہ نجات کی کوئی صورت۔ اب صرف خطاﺅں اور گناہوں پر اصرار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خطاﺅں اور گناہوں کو خوشنما بنادیتا ہے، ان کی عزت کو بڑھادیتا ہے، ان کے دنیاوی فائدوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خطاﺅں اور گناہوں کو عقلی دلائل فراہم کرکے انہیں ”فلسفیانہ چیز“ بنادیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ جو ہونا تھا ہوچکا، اور جو کچھ ہوچکا اس کے سوا کچھ اور ہونے کا امکان نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی مایوسی سے مطمئن ہونا سیکھ لیتا ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کی تباہی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کی آخرت تو تباہ ہوتی ہی ہے، اکثر دنیا بھی اس کے ہاتھ نہیں آتی، اور آتی ہے تو ہاتھ میں رہتی نہیں۔ البتہ جو شخص اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہوتا، جس کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی ہے وہ ہزاروں گناہ کرکے بھی توبہ کے ذریعے خدا کی طرف، مغفرت اور نجات کی جانب پلٹ آتا ہے۔
انسان کی زندگی مصائب و آلام میں گھری ہوئی ہے، لیکن مصائب و آلام بھی خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات مصائب و آلام کی کثرت، شدت اور ان کا تسلسل انسان کو اس خیال سے دوچار کردیتا ہے کہ مصائب و آلام کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور زندگی میں کبھی آسانی، کشادگی اور فراخی کا دور نہیں آئے گا۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انبیا و مرسلین تک کو سخت مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں جب کیڑے پڑگئے تو ان کے بھائی ان کے پاس آئے اور کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ تُو نے کچھ ایسے گناہ کیے ہیں جن کی پاداش میں تُو اس حالت کو پہنچا ہے۔ یہ سن کر حضرت ایوب علیہ السلام رو دیئے اور اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ تُو تو جانتا ہے کہ یہ سزا نہیں ہے، آزمائش ہے۔ عام آدمی مصائب و مشکلات سے گھبرا جاتا ہے، لیکن جن لوگوں کے سینوں میں امید کی شمع روشن ہوتی ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ رات کے بعد دن ضرور نکلتا ہے۔ مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ بارش سمندر، دریا اور میدان پر ہی نہیں، صحرا پر بھی برس کر رہتی ہے۔ لیکن امید کی یہ نعمت انسان کو اللہ اور اس کے دین کے ساتھ تعلق سے جس طرح فراہم ہوتی ہے کسی اور چیز سے اس طرح فراہم نہیں ہوسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کا تصور اور مذہب کس طرح امید پیدا کرتا ہے؟
ہمارے دین میں خدا کا تصور یہ ہے کہ وہ خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، رحیم ہے، کریم ہے، غفور ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کر ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنے بندوں کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کرتا ہے تو یہ بھی اس کی ایک عنایت اور اس کا ایک انعام ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے بندوں کے مقامات کو بلند کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے دائرے میں زندگی گزارنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ انسان کو سب کچھ دنیا میں نہیں ملے گا، کیونکہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے، چنانچہ انسان کو وہاں وہ کچھ ملے گا جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں بھی کچھ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام امیدیں پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دین کو آسان بناکر پیش کرو، اسے مشکل بناکر پیش نہ کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسانی سے امید پیدا ہوتی ہے اور مشکل سے مایوسی جنم لیتی ہے۔ آسانی سے شوق اور ذوق نمودار ہوتا ہے، مشکل سے جبر کی صورت ابھرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ آپ بشیر ہیں، دوسرا یہ کہ آپ نذیر ہیں۔ بشیر بشارت دینے والے کو کہتے ہیں اور نذیر ڈرانے والے کو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بشارت پوری انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان امید ہے، لیکن آپ کے ڈرانے کا عمل بھی امید ہی کی ایک صورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اچھائی اور برائی میں انتخاب کی آزادی دی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب انسان برائی اختیار کرتا ہے تو اس کی توانائی، وقت اور توجہ کا ایک حصہ برائی کی نذر ہوجاتا ہے، لیکن اگر اسے برائی کے نقصانات اور مضمرات سے ڈرا دیا جائے تو اس کی وہ توانائی، وقت اور توجہ جو برائی پر صرف ہورہی تھی نیکی کرنے پر صرف ہونے لگے گی۔ چنانچہ اس کے لیے امید کے امکانات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن انسان میں امید پیدا کرنے کے حوالے سے اسلام کی صلاحیت ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔
اس کی ایک مثال اقبال ہیں، جنہوں نے کہا ہے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
اقبال جس زمانے میں شاعری کررہے تھے وہ مسلمانوں کا عہدِ غلامی تھا۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ جنگ ِآزادی میں شکست کھا چکی تھی۔ اس کو انگریزوں کے تسلط اور ہندوﺅں کی اکثریت کا خوف لاحق تھا۔ وہ اپنے حال اور مستقبل سے مایوس تھی۔ ایسی کیفیت میں اجتماعیت کا شعور زائل ہوجاتا ہے اور افراد اپنی شخصیت، خاندان یا گروہ کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ امید کی روشنی ٹمٹماتے ہوئے دیے کی لَو میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال میں اقبال نے برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کو وہ بات بتائی جو بتانے کے لائق تھی۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ وہ خود کو ملت اور امت کے تصور سے وابستہ کریں۔ لیکن ایسا کرنے سے ہوتا کیا ہے؟ ایسا کرنے سے ملت کے وسائل فرد کے وسائل بن جاتے ہیں۔ ملت کی صلاحیتیں فرد کی صلاحیتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور ملت کے امکانات فرد کے امکانات بن کر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ فرد کی زندگی میں اگر امید کا ایک چراغ روشن ہوتا ہے تو ملت سے وابستہ ہوتے ہی اس کی زندگی میں امیدوں کے ہزاروں چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ اقبال اسلام کے علم اور مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کے مطالعے سے جانتے تھے کہ مسلمانوں کا زوال عارضی ہے اور جلد ہی وہ دور آئے گا جو امتِ مسلمہ کے عروج کا دور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ایک والہانہ پن کے ساتھ کہا
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
........٭٭٭........
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
یہی وجہ تھی کہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کی امیدوں کو بڑھایا بھی اور انہیں تابناکی بھی عطا کی۔ اس کا ”مقامی نتیجہ“ یہ نکلا کہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ میں ایک علیحدہ ملک کے قیام کے لیے جوش و جذبہ بھی پیدا ہوا اور ان میں اس حوالے سے غیر معمولی تحرک بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اسلام فرد کو صرف امت کے تصور تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ اسلام کہتا ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے پوری انسانیت ایک ہی کنبہ ہے۔ چنانچہ وہ فرد کے امکانات کو پوری انسانیت کے امکانات تک پھیلا دیتا ہے۔
اس کے برعکس سیکولرازم کا تجربہ یہ ہے کہ اس کی کائنات میں نہ خدا کا وجود ہے، نہ مذہب کا، نہ نبوت کا۔ چنانچہ انسان کی امیدیں صرف اپنے جیسے انسانوں سے وابستہ ہیں۔ لیکن لامذہبیت کے دائرے میں انسانیت اپنا تشخص قوم کے حوالے سے متعین کرتی ہے، چنانچہ اس دائرے میں ایک فرد کی امیدیں زیادہ سے زیادہ ایک قوم کی امیدیں ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ خدا اور مذہب کو درمیان سے نکالتے ہی انسانوں کے تعلقات مقابلے اور مسابقت کے تعلقات بن جاتے ہیں، اور مقابلے اور مسابقت کی دنیا خودغرضی کی دنیا ہے، اور خودغرضی فرد پرستی کی ایک بدترین صورت ہے۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ قوم پرستی کے دائرے میں ایک فرد کے امکانات تصور ہی کی سطح پر پوری قوم کے امکانات ہوتے ہیں۔ عملاً فرد کے ذاتی امکانات ہی اس کے اصل امکانات ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مادی اعتبار سے ترقی یافتہ معاشروں میں امیدیں کم ہیں مایوسیاں زیادہ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان معاشروں میں اجتماعیت کو حقیقی بنیاد فراہم کرنے والا ادارہ یعنی خاندان مسلسل کمزور پڑرہا ہے اور خودکشی سمیت مختلف جرائم کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہر جرم بالخصوص خودکشی امید کی کمی کا اشتہار ہے، اور اس پر قابو پانے کی واحد صورت یہ ہے کہ معاشرے میں امیدوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور امیدوں کو بیک وقت روحانی اور مادی دونوں پہلوﺅں سے متعلق کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment