میرے گزشتہ کالم ”ہیرا منڈی کلچر کا فروغ اور ہماری ذمہ داری“ بتاریخ 16 اپریل پر مجھے عام قارئین کی طرف سے بہت حوصلہ افزا ردعمل ملا جبکہ میڈیا اور کیبل نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ سیخ پا ہوگئے ۔ نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ہیرا منڈی کلچر کے فروغ پر انتہائی رنج اور غم کا اظہار کیا۔ عمومی طور پر میڈیا کو فحاشی و عریانیت کے پھیلاو ¿ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت، پیمرا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دوسرے ریاستی ذمہ دار اس تباہی پر خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی خواتین کی رہنما سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے فحاشی و عریانی کے خلاف اپنی جدوجہد کی تفصیل سے آگاہ کیا اور یقین دہانی کروائی کہ وہ اس سماجی و مذہبی برائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں اسی نوعیت کا ایک کیس دائر کر رکھا ہے مگر اس کیس کو سنا ہی نہیں جا رہا۔ ملک کے اہم ترین سیاسی رہنماو ¿ں میں صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، میاں نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین، اسفند یار ولی وغیرہ سب اس معاملہ میں خاموش تھے ، ہیں اور شاید رہیں گے کیونکہ میڈیا چاہے کتنا ہی بُرا کیوں نہ کرے اس کو کوئی ب ±را نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ سیاست بھی تو کرنی ہے ۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے البتہ17 اپریل کو بے حیائی کے فروغ پر حوصلہ افزاءبیان دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بیان کو عمومی طور پر میڈیا میں جگہ نہیں ملی مگر امیرجماعت نے درست کہا کہ پاکستان میں عورت کی ترقی اور برابری کے نام پر مغربی تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عورت جسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں سے احترام حاصل تھا اسے بازار کی زینت بنا کر پاکستانی معاشرے میں بے حیائی کے کلچر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا بھی ہندو تہذیب کے غلبے کے لیے عریاں اور فحش بھارتی فلموں کی نمائش کر کے دوقومی نظریہ کی دھجیاں اڑارہا ہے۔ معمولی اشیاءکی فروخت کے لیے عورت کو سائن بورڈ اور ہورڈنگز پر تشہیر کا ذریعہ بنا کر نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے جس کا حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی اور پیمرا بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔ منورحسن صاحب نے بلاشبہ سچ کہا کہ عریانی اور فحاشی کا سیلاب گھروں کے اندر پہنچ چکا ہے ۔ ایسے اشتہارات چینلز پر دکھائے جاتے ہیں کہ خبرنامہ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنا محال ہو گیا ہے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسے بے ہودہ اشتہارات ، فلموں اور پروگرامز کو بند کرنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ یہاں میں امیر جماعت اسلامی سے اختلاف کرنے کی جسارت کروںگاکیونکہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھا ہے جسے لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے کوئی سروکار نہیں۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی اس گندگی سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے دوسری دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ ، غیرقانونی کیبل چینلز اور پاکستانی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی کے خلاف نہ صرف عوامی مہم چلائے گی بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بُرائی کے خلاف آواز اُٹھائے گی ۔
اب ذرا میڈیا کے اندر کی بات کر لی جائے ۔ ہم میڈیا والے آزادی رائے کی تو بہت بات کرتے ہیں مگر میں نے جب بھی کوئی ایسا کالم لکھا جو فحاشی و عریانیت کے خلاف ہو یا جس میں اسلامی سزاو ¿ں کی بات کی گئی ہو یا کسی دوسرے موضوع پر اسلامی نکتہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا میڈیا کے کردار پر اعتراض کیا گیا ہو تو مجھے میڈیا کے اندر سے کوسا گیا۔ میرا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی۔ میرے خلاف ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کے کان بھرے گئے اور یہ تک کہا گیا کہ میں جنگ گروپ اور جیو کے خلاف کام کر رہا ہوں اور ان کا کاروبار تباہ کرنے کے در پہ ہوں۔ گزشتہ کالم پر بھی کچھ ایسی ہی باتیں سامنے آئیں۔ اعتراض کرنے والوں میں کیبل آپریٹرز بھی شامل تھے ۔ ادارے کی طرف سے جب اس قسم کے اعتراضات مجھے بھجوائے گئے تو میں نے یہ بات واضح کی کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ اور محمد کے حکم کے سامنے کسی شے کی کوئی حیثیت نہیں۔
No comments:
Post a Comment