Thursday, April 26, 2012

سوشلزم کاخاتمہ اوردنیاکا طرزعمل

روس کاسوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک تھا۔ یہ انقلاب دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا میں برآمد ہوگیا۔ اس کے اثر سے چین جیسے معاشرے میں بھی انقلاب برپا ہوگیا ۔ حالانکہ چینی قوم کو دنیا میں افیون زدہ قوم کہا جاتا تھا اور چین کے مستقبل سے کسی کو کوئی امید وابستہ نہ تھی۔ سوشلسٹ انقلاب نے ایک جانب جہاں آدھی دنیا کو متاثر کیا وہیں باقی ماندہ آدھی دنیا کو اپنے خوف میں مبتلا کرکے دنیا کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا اور ان دھڑوں کے درمیان ایک ایسی سرد جنگ برپا کردی جو کم وبیش پچاس سال جاری رہی۔ لیکن پچاس سال کی طویل اور شدید جنگ کے بعد بالآخر سوشلزم کو 1991ءمیں شکست ہوگئی۔ اسی سال سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا اور سوشلزم نہ صرف سوویت یونین‘ مشرقی یورپ اور چین میں فنا ہوگیا بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی اس کا وجود باقی نہ رہا۔ سوشلسٹ انقلاب کی طرح سوشلزم کا خاتمہ بھی ایک بڑا تاریخی واقعہ تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بارے میں سوشلزم کے حامیوں اور مخالفوں دونوں نے لاکھوں کتب اور اربوں مضامین تحریر کیے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سوشلزم کے خاتمے پر نہ سوشلسٹوں نے موضوع کا حق ادا کیا نہ اس کے دشمنوں نے اس سلسلے میں کلام کے تقاضے پورے کیے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوشلزم کا خاتمہ تاریخ کا ایک راز بن کر رہ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشلزم کے خاتمے کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آئی اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سلسلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ سوشلزم کا خاتمہ اچانک تھا۔ اتنا اچانک کہ اس کی توقع سوشلزم کے حامیوں کو کیا اس کے بدترین حریفوں کو بھی نہیں تھی۔ لیکن سوشلزم کے حامیوں کا معاملہ ہی اور تھا۔ ان کے لیے سوشلزم مذہب کی طرح ”مقدس“ تھا۔ چنانچہ وہ اس کے خاتمے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے لیے سوشلزم مذہب کی طرح ایک دائمی چیز تھی۔ بلکہ ان کے نزدیک اس حوالے سے سوشلزم کو مذہب پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ اس لیے کہ سوشلزم ان کی نظر میں ایک سائنسی نظریہ تھا۔ سوشلزم اس نظریے کا پہلا مرحلہ تھا۔ اگلے مرحلے میں سوشلزم کمیونزم میں تبدیل ہونا تھا۔ معاشرہ چھوٹے چھوٹے کمیونزم میں ڈھل جاتا اور پھر پوری انسانی تاریخ کمیونزم ہی کی تاریخ ہوتی۔ لیکن کارل مارکس کے یہ تمام خیالات شیخ چلی کے پلاﺅ ثابت ہوئے اور سوشلزم کو اپنے سفرکے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا نصیب نہیں ہوا۔سوویت یونین ختم ہوگیا اور سوشلزم تحلیل ہوگیا۔ چنانچہ سوشلسٹ ہکّا بکّارہ گئے۔ سوشلزم کے اچانک خاتمے نے سوشلزم پر ان کے ”ایمان“ کے پرخچے اڑا دیے۔ ان کے وجود کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں اور وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ سوشلزم کے خاتمے کے اسباب ومحرکات پر گفتگو کریں۔
سوشلسٹوںکا ایک مسئلہ یہ تھا کہ سوشلزم کا خاتمہ منظم اور برق رفتار تھا۔ اگر سوشلزم صرف سوویت یونین میں ختم ہوتا توسوشلسٹ اس پر طول طویل تقریریں کرتے ۔ وہ اسے امریکا کی‘ سی آئی اے کی خفیہ سازش قرار دیتے اور یہ بات مزید زوردے کر ہی کہی جاتی کہ سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔ لیکن سوشلزم صرف سوویت یونین میں ختم نہیں ہوا۔ مشرقی یورپ سے بھی اس کا جنازہ نکل گیا اور یہ عمل اتنا برق رفتار تھا کہ صرف تین چار ماہ میں 70سالہ سوشلزم مر بھی گیا اور اسے ہر جگہ اہتمام کے ساتھ دفنا بھی دیا گیا۔ تین چار ماہ اتنا مختصر عرصہ ہے کہ اتنے عرصے میں نظریہ کیا تیسرے درجے کے سیاست دان کی تصویر بھی فنا نہیں ہوتی۔
اس صورتحال نے دنیا بھر کے سوشلسٹوں کو شرمندگی میں مبتلا کردیا۔ چنانچہ وہ عرصے تک شرمندگی کے مارے خاموش رہے۔ پھر انہوں نے رفتہ رفتہ یہ کہنا شروع کیا کہ نظریے کبھی مرا نہیں کرتے۔ لیکن چین اور لاطینی امریکا میں سرمایہ داری کی غیرمعمولی پیش قدمی نے ان کی اس بات کو بے وزن کردیا۔ جہاں تک مسلم دنیا کے سوشلسٹوں کا تعلق ہے تو ان کی اکثریت کو سوشلزم سے اتنی محبت نہیں تھی جتنی انہیں اسلام سے چڑ تھی۔ چنانچہ انہوں نے سوشلزم کو پٹتے دیکھا تو وہ امریکا کے کیمپ میں جا کھڑے ہوئے جو ان کے نزدیک اسلام کے خلاف مزاحمت کی نئی علامت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے سوشلزم کے خاتمے کے اسباب ومحرکات پر گفتگو فضول تھی۔ لیکن سوشلسٹوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سوشلزم کے خاتمے کے اسباب ومحرکات پر گفتگو کے لیے درکار دانشورانہ اہلیت سے محروم تھے۔ ان کی وابستگی نظریے سے کم اور ریاست سے زیادہ تھی حالانکہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو نظریے نے ریاست کو جنم دیا تھا ریاست نے نظریے کو تخلیق نہیں کیا تھا۔ لیکن سوشلسٹوں کی وابستگی چونکہ ریاست کے ساتھ تھی اس لیے ریاست کی طاقت کے ختم ہوتے ہی ان کی نظریاتی طاقت انتہائی کم رہ گئی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے زوال کے اسباب پر غور کرنے کے لائق بھی نہ رہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سوشلسٹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ”ریاست زدہ“ ہوگئے تھے چنانچہ ان کی زندگی میں یقینا کچھ نہ کچھ شان تھی مگر ان کی موت المناک تھی اس لیے کہ سوشلسٹوں نے ”مرنے کے سلیقے“ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سرمایہ دارانہ دنیا نے سوشلزم کے خلاف 70 سال تک جنگ لڑی۔ اس جنگ کا ایک محاذ عسکری تھا۔ ایک سیاسی تھا۔ ایک اقتصادی تھا۔ ایک سفارتی تھا۔ ایک ابلاغی تھا۔ ایک فکری تھا۔ اس جنگ پر کھربوں ڈالر صرف ہوئے۔ اس سلسلے میں ہزاروں کتابیں اور کروڑوں مضامین لکھے گئے لیکن جب سوشلزم کو شکست ہوئی تو مغربی دنیا بھی تقریباً خاموش ہوکر بیٹھ گئی۔ حالانکہ یہ وقت 70 سال کی جدوجہد کی فتح کا جشن منانے کا وقت تھا۔ لیکن یورپی مغربی دنیا اس موقع پر چونکہ چنانچے سے آگے نہ بڑھی۔ اس کی وجہ تھی۔ اور وہ یہ کہ سوشلزم کی شکست سرمایہ دارانہ دنیا کی فتح نہیں تھی۔ اسلام کی فتح تھی۔ سوویت یونین کو افغانستان میں ڈالر اور مغربی دنیا کے اسلحے نے شکست نہیں دی تھی۔ سوویت یونین کی شکست مسلمانوں کے تصور جہاد اور شوق شہادت کا نتیجہ تھا۔ مغربی دنیا سوشلزم کی شکست پر کلام کرتی تو اس کے سامنے دو ہی امکانات تھے۔ ایک یہ کہ سوشلزم ان کی شکست میں اسلام کے کردار کو نظر انداز کردیا جائے اور ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ سوشلزم کی شکست پر گفتگو کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اسلام کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور یہ صورت اسلام کی عظمت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھی اور مغرب کے لیے یہ چیز قابل قبول نہیں تھی۔
المناک بات یہ ہے کہ سوشلزم کے خاتمے پر مسلم دنیا نے بھی گفتگو کا حق ادا نہیں کیا۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ مسلم دنیا بحیثیت مجموعی نعرے بازوں کی دنیا بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے نعرے بازوں کی دنیا جو اپنی فتح تک کا جشن منانے اور اس کے حوالے سے نظریاتی مواد تخلیق کرنے کے اہل نہیں۔ مغرب کو یقین ہوتا کہ سوشلزم کی شکست میں اس کا کردار بنیادی ہے تو وہ اس موضوع پر مواد کے دریا بہا دیتا لیکن مسلم دنیا شاید اس حوالے سے ڈھنگ کی چار کتابیں بھی شائع نہیں کرسکی۔ مسلم دنیا سوشلزم کی شکست کو اس لیے بھی نمایاں نہ کرسکی افغانستان میں جہاد کے ثمرات نہ سمیٹے جاسکے اور افغانستان خانہ جنگی کی نذر ہوگیا۔

No comments:

Post a Comment