ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کا مسلم معاشرہ ’’دانش وروں کی کہکشاں‘‘ تھا، اور
ایک زمانہ یہ ہے کہ آسمان پر چند ستاروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ان میں
سے بھی کچھ ستارے ٹمٹماتے نظر آتے ہیں۔ کچھ مدھم ہیں اور کچھ اتنے مدھم کہ
ان کی موجودگی حقیقت سے زیادہ گمان محسوس ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کبھی
برصغیر کے مسلمانوں کا معاشرہ دانش وروں کی کہکشاں کیوں تھا؟ اور اب اس کے
آسمان پر ستاروں کا کال کیوں پڑگیا ہے؟
مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی، اور اس زمانے میں انہوں نے
بڑے بڑے تخلیقی کارنامے انجام دیئے۔ انہوں نے ایک دور میں شاہ عبداللطیف
بھٹائی، سچل سرمست، بابا فرید اور بلھے شاہ کی شاعری تخلیق کی۔ مغلوں کا
دور اگرچہ بادشاہوں کا دور ہے، مگر مغل بادشاہوں میں سے بعض خود بلند سطح
کے دانش ور تھے۔ بابر برصغیر میں مغل سلطنت کا بانی بھی تھا اور اس نے
’’تزکِ بابری‘‘ جیسی کتاب بھی لکھی ہے۔ بابر کی زندگی کا یہ واقعہ تاریخ کے
بڑے واقعات میں سے ایک ہے کہ اس کا بیٹا ہمایوں بیمار پڑا اور اسے کسی
طبیب اور کسی دوا سے شفا نہ ہوئی تو بابر نے ہمایوں کے پلنگ کے تین چکر
کاٹے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری زندگی ہمایوں کو دے دے اور ہمایوں
کی بیماری مجھے دے دے۔ بابر کی اس دعا کے ساتھ ہی ہمایوں شفایاب ہوتا چلا
گیا اور بابر بیمار پڑگیا اور جلد ہی اس کا انتقال ہوگیا۔ کہنے کو بابر
بادشاہ تھا اور بادشاہوں کو اپنی زندگی اور اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے۔ لیکن
بابر کی محبت ان تمام چیزوں پر غالب تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بابر وہ
کچھ دیکھ اور محسوس کرسکتا تھا جو بادشاہ کیا بڑے بڑے دانش ور بھی دیکھ اور
محسوس نہیں کرپاتے۔
جہانگیر کا عدل مشہور ہے، مگر اس نے خود ’’تزک ِجہانگیری‘‘ بھی تحریر کی
ہے۔ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کرایا۔ تاج محل کہنے کو ایک عمارت ہے مگر
درحقیقت یہ محبت کے موضوع پر پتھروں کی زبان میں لکھی جانے والی ایک ایسی
کتاب ہے جو ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ دلّی اور لاہور کی جامع مساجد
خدا سے بندے کی محبت کے موضوع پر سنگ ِ مرمر سے لکھے جانے والے
’’انسائیکلوپیڈیاز‘‘ ہیں۔ لاہور کا شالامار باغ جنت کی یاد دلانے والی ایک
ایسی تصنیف ہے جس کی معنویت آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔
مغلوں کے عہد نے برصغیر کو اردو جیسی عظیم زبان دی۔ اس دور نے میرؔ اور
غالبؔ کی شاعری پیدا کی۔ مذہبیات کے ذیل میں صوفیا کی سینکڑوں اہم تصانیف
ہی نہیں، اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں مرتب و مدون ہونے والی فتاویٰ
عالمگیری بھی تاریخ ساز ہے جو کئی صدیوں تک برصغیر کی مذہبی زندگی کا مرکزی
حوالہ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُس دور میں مسلمانوں کی دانش ورانہ روایت کے
عروج کی وجہ کیا تھی؟
اس سلسلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین اور اپنی تہذیبی
روایت سے اتنی شدید محبت تھی کہ یہ محبت ان کے یہاں ایک بہت بڑی تخلیقی لہر
یا Creative Urge بن گئی تھی۔ انسان کو جب کسی چیز سے محبت ہوتی ہے تو وہ
اسے زاویے بدل بدل کر دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے۔ وہ اسے طرح طرح سے بیان
کرتا ہے۔ اسے اس چیز کی معنویت اور حسن و جمال میں اضافے سے گہری مسرت ہوتی
ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی اپنے دین اور اپنی تہذیب سے محبت کی دو صورتیں
تھیں۔ ایک یہ کہ انہیں کسی موازنے اور مقابلے کی نفسیات کے بغیر اپنے دین
اور اپنی تہذیب سے محبت ہے۔ اس لیے کہ ان کا دین اور ان کی تہذیب ایسے ہیں
کہ ان سے کسی موازنے اور مقابلے کے بغیر شدید محبت کی جاسکتی ہے۔ لیکن
برصغیر میں مسلمان ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کے باوجود ایک اقلیت تھے اور
ان کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے تھا جو پانچ ہزار سال پرانی تھی۔ اس تہذیب
کی تاریخ یہ تھی کہ اس نے اپنے دائرے میں آنے والے ہر مذہب کو جذب کرکے
اپنے جیسا بنالیا۔ چنانچہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے جداگانہ مذہبی اور
تہذیبی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بھی تخلیقی میدان میں اپنے وجود کی
پوری قوت صرف کردی۔
مسلمان برصغیر کے فاتح تھے، اور فاتحین کی نفسیات ’’ذمے داری‘‘ کی نفسیات
ہوتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست اور معاشرے کو چلانا ان کا کام ہے
اور انہیں اس سلسلے میں ’’ذمے داری‘‘ کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور ذمے داری کی
ادائیگی ذہین، صاحبِ علم اور تخلیقی انسان ہوئے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی۔
چنانچہ مسلمانوں کی دانش ورانہ روایت میں ان کے احساسِ ذمے داری کا بھی اہم
کردار ہے۔ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس کی تخلیقی کاوش کا مرکز
اس کا احساسِ برتری تھا۔ مسلمانوں کے اس دور کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ
برصغیر اپنی وسعت میں خود ایک عالم تھا، اور مسلمان اس عالم پر حکمرانی
کرتے ہوئے خود اطمینانی کا شکار ہوگئے تھے اور ان میں ایک ایسی دروں بینی
پیدا ہوگئی تھی کہ انہوں نے طویل عرصے تک یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ
برصغیر کے باہر بھی کوئی دنیا ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو اس دنیا کے شب و
روز کیسے ہیں؟ اس دنیا میں کس طرح کا نظام موجود ہے؟ مسلمان اگر بیرونی
دنیا کے بارے میں آگاہ ہوتے تو شاید یورپی لوگوں کی نفسیات اور عزائم کو
سمجھنا ان کے لیے آسان ہوتا۔
مسلمانوں کی دانش ورانہ روایت کا دوسرا دور برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے
شروع ہوا۔ اس دور کی نمود کی تین بنیادیں تھیں:
(1) مغربی تہذیب کے چیلنج کا جواب
(2) اپنی دینی و تہذیبی روایت کا دفاع
(3) اسلام کے احیا اور غلبے کا شعور
اکبر الٰہ آبادی کی شاعری مغربی تہذیب کے چیلنج کے جواب میں سامنے آنے والا
پہلا بڑا تخلیقی کارنامہ ہے۔ اکبر کی شاعری کی قوت اس کا المیہ پہلو ہے،
اور المیہ پہلو اس شعور سے پیدا ہوا تھا کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب سے ہر
اعتبار سے برتر ہے، بلکہ اسلامی تہذیب حق ہے اور مغربی تہذیب باطل ہے، مگر
اس کے باوجود مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ غلبہ اپنی نہاد میں
عسکری ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے تہذیبی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ چنانچہ
اکبر نے بے پناہ تخلیقی وفور کے ساتھ مشرق و مغرب کا موازنہ کیا۔ اور ان کا
کمال یہ ہے کہ انہوں نے اشیائ، اسماء اور تصورات کو علامت بناکر رکھ دیا۔
دنیا میں شاعری اور نثر دونوں میں طنز و مزاح کی بڑی روایت موجود ہے، لیکن
دو تہذیبوں کے موازنے کی بنیاد پر اکبر نے جتنی بڑی شاعری پیدا کی، عالمی
ادب میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔
اکبر کا مسئلہ اگر مغرب سے عدم مطابقت کو ثابت کرنا تھا تو سرسید کا مسئلہ
مغرب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونا تھا۔ اکبر میں مغرب سے جیسا گریز
تھا سرسید میں مغرب کے لیے ویسی ہی رغبت تھی۔ چنانچہ اکبر نے بڑی شاعری
پیدا کی، اور سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ’’جدیدیت کا تاج
محل‘‘ تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ سرسید کی فکر سے اتفاق مشکل ہے، یہاں تک کہ
ان کی فکر کا مکمل استرداد ممکن ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ مغرب سے سرسید کو سچی محبت تھی، یہاں تک کہ اسلامی تہذیب انہیں
مغربی تہذیب کے سامنے معمولی محسوس ہوتی تھی۔ سرسید کی اس محبت اور مرعوبیت
نے ان سے ایسی تفسیر لکھوائی جس نے مسلمانوں کے پورے علمِ تفسیر کو مسترد
کردیا۔ اسی محبت اور مرعوبیت نے سرسید سے ایسے ہزاروں مضامین لکھوائے جن
میں انہوں نے اپنی تہذیب کے نقائص گنوائے ہیں اور مغربی تہذیب کی خوبیوں پر
روشنی ڈالی ہے۔ سرسید نے مغرب کے زیراثر ایک نیا تصورِ ادب پیدا کیا۔
انہوں نے نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ اس سارے کام کی ایک سطح تھی۔ اس
میں ایک تخلیقی لہر تھی۔ اس کام سے سو فی صد اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اسے
نظرانداز کرکے برصغیر کے مسلمانوں کی حالیہ تاریخ پر گفتگو ممکن ہی نہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سرسید صرف ایک فرد نہیں تھے، انہوں نے اپنے زمانے میں ہی
متاثرین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کرلیا تھا۔
مولوی مملوک علی کے دو شاگرد تھے، (سر) سید احمد خان اور (مولانا) قاسم
نانوتوی۔ سرسید نے مسلمانوں کو ’’جدید‘‘ بنانے کے لیے علی گڑھ میں کالج کی
بنیاد رکھی جو آگے چل کر یونیورسٹی بن گیا۔ (مولانا) قاسم نانوتوی نے
برصغیر کے مسلمانوں کو ’’قدیم‘‘ بنانے اور ان کی دینی روایت کے تحفظ کے لیے
دیوبند میں مدرسہ قائم کیا جو بالآخر دارالعلوم کی صورت اختیار کرگیا۔ اس
دارالعلوم نے برصغیر میں مسلمانوں کی مذہبی روایت کے تحفظ کا کام اس بڑے
پیمانے پر کیا کہ اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اس سلسلے میں احمد رضا
خاں بریلوی کی خدمات بھی غیر معمولی ہیں، اور انہیں نظرانداز کرکے برصغیر
میں مدارس کی دینی خدمات پر بات نہیں کی جاسکتی، تاہم دینی خدمات کے سلسلے
میں دیوبند کا حصہ بریلی کے حصے سے بہت زیادہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دینی
روایت کے تحفظ کے شعور نے برصغیر میں سینکڑوں بڑے عالم اور ہزاروں کتب
تخلیق کیں۔ ان میں مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا احمد رضا خاں
بریلویؒ سرفہرست ہیں۔
قدامت اور جدیدیت کی اس کشمکش نے علماء اور دانش وروں کا ایک اور حلقہ پیدا
کیا۔ اس حلقے کا خیال تھا کہ دیوبند اور بریلی ضرورت سے زیادہ قدامت پسند
ہوگئے ہیں اور علی گڑھ ضرورت سے زیادہ جدید ہوگیا ہے جبکہ دینی روایت کے
تحفظ اور فروغ کا کام ’’توازن‘‘ کا طلب گار ہے۔ اس توازن کو تخلیق کرنے کے
لیے لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے نے بھی کئی بڑے
عالم اور کئی اہم کتب برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کو فراہم کیں۔ یہ مغرب کے
چیلنج کے جواب کی آرزو اور دینی و تہذیبی میراث کے تحفظ کا شعور ہی تھا جس
نے برصغیر میں بڑی بڑی سیاسی و جہادی تحریکیں برپا کرائیں، اور اسی شعور نے
برصغیر میں مسلم صحافت کے خدوخال واضح کیے اور درجنوں اہم صحافی پیدا کیے۔
اکبر الٰہ آبادی مغرب کے خلاف تھے مگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ مغرب ہمارا حال
بھی ہے اور مستقبل بھی۔ سرسید مغرب کے حامی تھے اور ان کا خیال تھا کہ
ہمارا حال بھی مغرب سے متعین ہورہا ہے اور مستقبل بھی مغرب ہی سے متعین
ہوگا۔ دیوبند، بریلی اور ندوۃ العلماء کے علماء دینی روایت کا تحفظ چاہتے
تھے مگر خیال ان کا بھی یہی تھا کہ حال میں بھی مغرب کا سکہ چل رہا ہے اور
مستقبل میں بھی مغرب ہی کا سکہ چلے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال
کی شخصیت بہت مختلف ہے۔ اقبال نے مغرب کے چیلنج کا بھرپور جواب دیا، اور ان
کے جواب کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مغرب ہمارا حال ضرور ہے مگر ہمارا مستقبل
صرف اسلام ہے، اس لیے کہ مغرب اپنی موت آپ مررہا ہے۔ اس خیال نے اقبال میں
ایسی سرشاری پیدا کی کہ ان کی شاعری اسلام کے غلبے اور امت ِمسلمہ کی شوکت
کی خوشی میں ’’رقصِ درویش‘‘ کا منظر پیش کرنے لگی۔ لیکن اقبال اپنی شاعری
میں مجرد بیانات دے کر نہیں رہ گئے، انہوں نے مغرب کی موت کا اعلان کیا اور
اس کے دلائل بیان کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج کا اعلان کیا اور اس
سلسلے میں اپنا استدلال پیش کیا۔ اقبال کی شاعری اتنا بڑا تخلیقی تجربہ ہے
کہ اقبال کی شخصیت ہزاروں دانش وروں کے برابر تھی اور اقبال جب تک زندہ رہے
ان کی موجودگی سے ایسا ہی محسوس ہوتا رہا کہ وہ ایک نہیں ہیں، ایک میں
ہزار ہیں۔ اقبال نے جو کام شاعری میں کیا، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے وہی
کام مذہبیات کے دائرے میں انجام دیا۔ انہوں نے مغرب کے چیلنج کا جواب بھی
دیا، اسلام کی حقانیت بھی واضح کی اور اس کے مستقبل میں غلبے کے یقین کے
ساتھ عملی جدوجہد کی روایت بھی پیدا کی۔ مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا معاملہ
بھی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ انہوں نے تن تنہا وہ کام کیا جو
بڑے بڑے ادارے بھی نہیں کرپاتے۔
برصغیر میں ترقی پسند تحریک ان معنوں میں اجنبی تحریک تھی کہ وہ نہ عوام کے
عقائد کے مطابق تھی، نہ ہی ان کی ثقافت کے مطابق۔ لیکن اس نے دیکھتے ہی
دیکھتے شاعروں، ادیبوں اور دانش وروں کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا۔ اس کی وجہ
یہ تھی کہ اس تحریک میں ’’انوکھی دریافت‘‘ کا رنگ تھا۔ معاش زندگی کا جزو
ہے مگر سوشلزم نے اسے کُل بنادیا۔ یہ سوشلزم کا ایک بڑا ’’عیب‘‘ تھا، لیکن
اس کے ’’نئے پن‘‘ نے اسے سوشلزم کا سب سے بڑا ’’ہنر‘‘ بنادیا۔ سوشلسٹوں نے
کہاکہ دیکھو ہم جس طرح زندگی کو دیکھتے ہیں ہم سے پہلے کسی نے زندگی کو اس
طرح دیکھا ہی نہیں۔ ان کی اس بات میں جذباتی اور اتھلی تہذیبی شخصیتوں کے
لیے بڑی اپیل تھی۔ ترقی پسند تحریک میں بڑی شدت تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی
کہ سوشلزم ایک انقلابی نظریہ تھا، اور اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ جزو کو
کُل بناکر پیش کرنے کے لیے وجود کی پوری قوت صرف کرنی پڑتی ہے۔ تاہم اس سے
قطع نظر ترقی پسند تحریک نے برصغیر کی مسلم معاشرت میں سوشلسٹ تناظر کے
حامل دانش وروں کی ایک فوجِ ظفر موج پیدا کی۔ لیکن گزشتہ چالیس سال کے
منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو صورتِ حال افسوس ناک نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے درمیان مغرب کو چیلنج سمجھنے والے اور اس
چیلنج کا جواب دینے کی آرزو رکھنے والے ناپید ہوگئے ہیں۔ اب کسی کو دین کی
روایت کے تحفظ اور فروغ کی تمنا بھی درپیش نہیں ہے۔ دینی حلقوں میں ایک
ایسا ذہن موجود ہے جو سمجھتا ہے کہ کرنے کا سارا کام ہمارے ’’اکابرین‘‘
کرکے جاچکے، اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ خیال تھا کہ پاکستان کے
قیام کے بعد پاکستان کا حکمران طبقہ آزادی کے زیراثر ’’ذمے داری‘‘ کا
مظاہرہ کرے گا، لیکن آزادی نے اس طبقے کو ذمے دار بنانے کے بجائے غیر ذمے
دار بنادیا۔ رہا اسلام کے احیاء کا سوال… تو اکثر مسلمانوں کا خیال یہ رہا
ہے کہ شاید یہ ممکن ہی نہیں، اور اگر ممکن ہوگا تو ابھی اس میں بہت دیر ہے۔
البتہ افغانستان میں جہاد کرنے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ عسکری محاذ کی فتح
ہر محاذ کی فتح ہے۔ اس طرزِفکر کا حاصل یہ ہے کہ احمد رضا خاں بریلویؒ کے
علوم کو ان کے پیروکاروں نے مُردہ علوم بنادیا ہے۔ اہلِ دیوبند کا یہ حال
ہے کہ اب مولانا اشرف علی تھانویؒ کو پڑھنے والے عام لوگوں میں کیا علماء
میں بھی موجود نہیں۔ چنانچہ اب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتب کی
’’تسہیلیں‘‘ کی جارہی ہیں۔ یعنی مولانا اشرف علی تھانویؒ کی فکر پر اضافہ
تو کیا ہوتا، اس فکر کا تحفظ بھی تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ مولانا مودودیؒ
کی فکر کا یہ عالم ہے کہ جماعت اسلامی میں اکثر دانش وروں نے مولانا کو
اپنے الفاظ میں دوہرایا ہے اور اس طرح مولانا کی فکر کے معیار کو گرا دیا
ہے۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے حلقہ ٔ قارئین میں مولانا کو اب ’’مشکل
لکھنے والا‘‘ سمجھا جانے لگا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا سوچنے، سمجھنے
یا کہنے والے اپنے ’’عیب‘‘ کو مولانا کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں
اس کا شعور تک نہیں ہے۔ ترقی پسندوں کا حال سب سے برا ہے۔ ان کا نظریہ
مرگیا اور اس نظریے نے جو ریاستیں پیدا کی تھیں وہ دشمن نظریے یا سرمایہ
دارانہ نظام کی علم بردار بن گئیں، چنانچہ ان کی فکر منہ کے بل گر پڑی ہے۔
کہنے کو وہ کہتے ہیں کہ نظریے مرا نہیں کرتے۔ مگر ان کے اس اعلان میں کوئی
یقین نہیں ہوتا۔ میرؔ نے کہا تھا ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
بلاشبہ یہ محبت کی قوت ہے جو غیر موجود کو موجود بناتی ہے، اور جو انسان کو
یقین دلاتی ہے کہ تُو جسے ناممکن سمجھتا ہے وہ بھی ممکن ہے۔ دوسری بنیادی
بات اقبال نے کہی ہے، انہوں نے فرمایا ہے ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
No comments:
Post a Comment