رسول اکرم نے فرمایاہے کہ ہربچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتاہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں ۔ رسول کریم کے اس ارشادسے معلوم ہوتاہے کہ ماحول کی قوت اتنی زبردست چیز ہے کہ وہ انسان کی فطرت کو فناتو نہیں کرپاتی مگر اس پر اس طرح غالب آجاتی ہے کہ وہی اس کا اصل بن کر رہ جاتی ہے۔ ہربچے کی فطرت اسلام ہوتی ہے مگر اکثر بچے اپنی فطرت کے مطابق زندگی بسرنہیں کرتے بلکہ ان کا ماحول ان کے فطرت ثانیہ بن جاتاہے۔ یہی فطرت انسان کا تصورذات بن جاتی ہے ۔ اس لیے اس کا تشخص متعین ہوتاہے اور اسی فطرت ثانیہ تصور ذات اور تشخص کے تحت انسان زندگی بسرکرتاہے۔
مذہب ان حقائق کو جس طرح سمجھتاہے۔ نام نہاد عقلی طرزفکراس کا تصور بھی نہیںکرسکتا۔رسول اکرم جب مبعوث ہوئے تو اہل عرب کی حالت خراب تھی یہ کفر اورشرک میں مبتلا نہیں تھے بلکہ کفراورشرک کی محبت ان کے رگ وپے میں سرائیت کیے ہوئے تھی۔ وہ اکثر اور کبھی فاقے کے خوف سے اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ ان کے درمیان معمولی معمولی بات پرجنگیں شروع ہوجاتی تھیں جو بسا اوقت چالیس چالیس سال جاری رہتی تھیں۔ ان حالات کو دیکھ کرکون کہہ سکتاتھاکہ اس معاشرے میں حضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عمرفاروق‘ حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علیؓ ‘نمودارہونے والے ہیں‘ اور یہ معاملہ صرف خلفائے راشدون تک محدود نہیں بلکہ یہ دائرہ بہت وسیع ہے اور اس دائرے میں موجود صحابہ کے بارے میں رسول نے فرمایاہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کروگے فلاح پاﺅگے۔اس تناظرمیں دیکھاجائے تو دراصل اسلام نے پورے معاشرے ہی کی قلب ماہیت کردی۔ کافروں اور مشرکوں کو توحید پرست بنادیا۔ عقل پرستوں کو وحی کا عاشق بنادیا خودپسندوں کو رسول اکرم کے عشق میں فناکردیا۔ جن کے سینوں میں سل تھی انہیں دل عطاکردیا۔ ظالموں کو انصاف کی علامت میں تبدیل کردیا۔ حق مارنے والوں کو کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے علمبرداروں میں ڈھال دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب کیسے برپاہوا؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ اسلام اور رسول اکرم کی سیرت طیبہ کے جلال وجمال نے ماحول کے جبرکو توڑدیا اور اہل عرب کی اصل فطرت کو ”بحال اورفعال“ کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل عرب ماحول کے جبرسے بدلے تھے مگر ان کی فطرت سلیم تھی۔ ماحول کا جبرٹوٹا تو ان کی فطرت سلیم نے اپنے کمالات دکھانے شروع کردیے۔
ماحول کے جبرکی سب سے بڑی تاریخی مثال بنی اسرائیل کی ہے۔ بنی اسرائیل ایک معجزہ دیکھتے تھے اور ان کا ایمان تازہ ہوجاتا تھا لیکن جیسے ہی وہ معجزے کچھ وقت کے فاصلے پر جاکرکھڑے ہوتے تھے معجزے کی قوت تحلیل ہوجاتی تھی اور ماحول کا جبراپنی گرفت میں لے لیتاتھا۔ حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کے درمیان تھے تو وہ صاحبِ صدق وصفاتھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو طورپرطلب کرلیا اورحضرت موسیٰؑ چالیس دن میں واپس نہ لوٹ سکے تو بنی اسرائیل پرسامری کاجادوچل گیا اور وہ بچھڑے کی پوجاکرنے لگے۔ حضرت موسیٰؑ واپس آئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کوان کی گمراہی پہ مطلع کیاوہ جان کی قربانی کے عمل سے گزرنے پر بھی آمادہ ہوگئے اور انہوں نے ایک بارپھر ایمان کی ڈورکو مضبوطی سے تھام لیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد جب ان کا مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہوا جس کے لوگ جسمانی اعتبارسے بہت مضبوط اور تواناتھے تو حضرت موسیٰؑ کی موجودگی بھی انہیں ماحول کے جبرسے محفوظ نہ رکھ سکی اور حضرت موسیٰؑ کی موجودگی بھی انہیں ماحول کے جبرسے محفوظ نہ رکھ سکی اور انہوں نے حضرت موسیٰؑ سے صاف کہہ دیا کہ اس طاقت ور قوم سے آپ اور آپ کا خدا لڑے تولڑے ہم تو ان سے لڑنے والے نہیں ہیں۔ تاہم ان مثالوں سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل ماحول کے جبرکے ”قتیل“ تھے مگر ماحول کے جبرنے ان کی فطرت کو مسخ نہیں کیاتھا۔
ماحول کے جبرسے فطرت کے مسخ ہوجانے کی سب سے بڑی مثال حضرت نوحؑ کی قوم ہے۔ حضرت نوحؑ نے ساڑھے نوسوسال تبلیغ کی مگر جب طوفان نوح آیا تو حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر 70 سے زائد لوگ نہیں تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت نوحؑ کی قوم کی عظیم اکثریت نے کم وبیش ایک ہزار سال تک حق کو قبول نہ کرسکنے کے مرض کا مظاہرہ کیا اور ایسا صرف اس لیے ہواکہ ماحول کے جبرنے ان کی فطرت کو مسخ کردیا تھا چنانچہ صرف 70 لوگ ماحول کے جبرسے آزاد ہوسکے ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ حضرت نوحؑ کی قوم کو مزید یک ہزارسال تک بھی تبلیغ کی جاتی تو وہ حق کو قبول نہ کرتی۔ اس صورتحال کی وجہ سے قوم نوحؑ اپنے ”ہونے کے جواز“ سے محروم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے فناکردیا۔
شیطان ماحول کے جبرکی قوت سے آگاہ ہے۔ چنانچہ اس نے تاریخ کے ہردور میں ماحول کے جبرکی تخلیق پرتوجہ مرکوزکی ہے۔ ماحول کے جبرمیں طاقت اور دولت کا کرداربنیادی ہے۔ چنانچہ شیطان سیاسی وعسکری طاقت اور دولت کی قوت کو معاشرے کا محوربنادیتاہے یہاں تک کہ انہیں کوئی چیلنج کرنے والا باقی نہیں رہتا۔ لیکن شیطان صرف اتناکرنے پر اکتفا نہیں کرتا۔ وہ ماحول کے جبرکو نظام بنادیتاہے اور وہ ایسا اس لیے کرتاہے کہ باطل نظام بن کر ”فطری“ بھی نظرآتاہے۔ اس میں ”عظمت“ بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی ”عمر“ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ چند صدیوں کا تجربہ حیران کن ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں باطل نظام بن کر جس طرح مدلل صوت میں سامنے آیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً مغرب کی سیکولر فکرنے خدا اور مذہب کے انکار کو ایک باضابطہ فلسفہ بنادیا اور اسے عالمگیریت عطا کردی۔ اس طرح سوشلزم نے بھی خدا اور مذہب کے انکار کے لیے دلائل وبراہین پیدا کیے اور ایک عالمگیر نظام تخلیق کیا۔ اس کے نتیجے میں اربوں لوگ ایسے ہوگئے کہ ان تک ایمان کی روشنی پہنچنے کے امکانات بہت کم ہوں گے۔ بلاشبہ اس عرصے میں اہل مذہب نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ انہوں نے مذہب کو آفاقی قوت بنانے کے بجائے ”مقامیت“ کا اسیرکردیا۔ وہ مذہب کی انقلابیت کے بجائے اس کے تقلیدی پہلو کو اوڑھنا بچھونا بناکر بیٹھ گئے۔ چنانچہ خدا کے ساتھ ان کا تعلق ایک ”عادت “ بن گیا ۔ اگر انسان کو اس عادت کا شعور نہ ہوتو عادت کی تکرارعمل کے بوجھل پن کوبڑھاتی چلی جاتی ہے۔
nn
مذہب ان حقائق کو جس طرح سمجھتاہے۔ نام نہاد عقلی طرزفکراس کا تصور بھی نہیںکرسکتا۔رسول اکرم جب مبعوث ہوئے تو اہل عرب کی حالت خراب تھی یہ کفر اورشرک میں مبتلا نہیں تھے بلکہ کفراورشرک کی محبت ان کے رگ وپے میں سرائیت کیے ہوئے تھی۔ وہ اکثر اور کبھی فاقے کے خوف سے اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ ان کے درمیان معمولی معمولی بات پرجنگیں شروع ہوجاتی تھیں جو بسا اوقت چالیس چالیس سال جاری رہتی تھیں۔ ان حالات کو دیکھ کرکون کہہ سکتاتھاکہ اس معاشرے میں حضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عمرفاروق‘ حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علیؓ ‘نمودارہونے والے ہیں‘ اور یہ معاملہ صرف خلفائے راشدون تک محدود نہیں بلکہ یہ دائرہ بہت وسیع ہے اور اس دائرے میں موجود صحابہ کے بارے میں رسول نے فرمایاہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کروگے فلاح پاﺅگے۔اس تناظرمیں دیکھاجائے تو دراصل اسلام نے پورے معاشرے ہی کی قلب ماہیت کردی۔ کافروں اور مشرکوں کو توحید پرست بنادیا۔ عقل پرستوں کو وحی کا عاشق بنادیا خودپسندوں کو رسول اکرم کے عشق میں فناکردیا۔ جن کے سینوں میں سل تھی انہیں دل عطاکردیا۔ ظالموں کو انصاف کی علامت میں تبدیل کردیا۔ حق مارنے والوں کو کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے علمبرداروں میں ڈھال دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب کیسے برپاہوا؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ اسلام اور رسول اکرم کی سیرت طیبہ کے جلال وجمال نے ماحول کے جبرکو توڑدیا اور اہل عرب کی اصل فطرت کو ”بحال اورفعال“ کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل عرب ماحول کے جبرسے بدلے تھے مگر ان کی فطرت سلیم تھی۔ ماحول کا جبرٹوٹا تو ان کی فطرت سلیم نے اپنے کمالات دکھانے شروع کردیے۔
ماحول کے جبرکی سب سے بڑی تاریخی مثال بنی اسرائیل کی ہے۔ بنی اسرائیل ایک معجزہ دیکھتے تھے اور ان کا ایمان تازہ ہوجاتا تھا لیکن جیسے ہی وہ معجزے کچھ وقت کے فاصلے پر جاکرکھڑے ہوتے تھے معجزے کی قوت تحلیل ہوجاتی تھی اور ماحول کا جبراپنی گرفت میں لے لیتاتھا۔ حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کے درمیان تھے تو وہ صاحبِ صدق وصفاتھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو طورپرطلب کرلیا اورحضرت موسیٰؑ چالیس دن میں واپس نہ لوٹ سکے تو بنی اسرائیل پرسامری کاجادوچل گیا اور وہ بچھڑے کی پوجاکرنے لگے۔ حضرت موسیٰؑ واپس آئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کوان کی گمراہی پہ مطلع کیاوہ جان کی قربانی کے عمل سے گزرنے پر بھی آمادہ ہوگئے اور انہوں نے ایک بارپھر ایمان کی ڈورکو مضبوطی سے تھام لیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد جب ان کا مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہوا جس کے لوگ جسمانی اعتبارسے بہت مضبوط اور تواناتھے تو حضرت موسیٰؑ کی موجودگی بھی انہیں ماحول کے جبرسے محفوظ نہ رکھ سکی اور حضرت موسیٰؑ کی موجودگی بھی انہیں ماحول کے جبرسے محفوظ نہ رکھ سکی اور انہوں نے حضرت موسیٰؑ سے صاف کہہ دیا کہ اس طاقت ور قوم سے آپ اور آپ کا خدا لڑے تولڑے ہم تو ان سے لڑنے والے نہیں ہیں۔ تاہم ان مثالوں سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل ماحول کے جبرکے ”قتیل“ تھے مگر ماحول کے جبرنے ان کی فطرت کو مسخ نہیں کیاتھا۔
ماحول کے جبرسے فطرت کے مسخ ہوجانے کی سب سے بڑی مثال حضرت نوحؑ کی قوم ہے۔ حضرت نوحؑ نے ساڑھے نوسوسال تبلیغ کی مگر جب طوفان نوح آیا تو حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر 70 سے زائد لوگ نہیں تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت نوحؑ کی قوم کی عظیم اکثریت نے کم وبیش ایک ہزار سال تک حق کو قبول نہ کرسکنے کے مرض کا مظاہرہ کیا اور ایسا صرف اس لیے ہواکہ ماحول کے جبرنے ان کی فطرت کو مسخ کردیا تھا چنانچہ صرف 70 لوگ ماحول کے جبرسے آزاد ہوسکے ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ حضرت نوحؑ کی قوم کو مزید یک ہزارسال تک بھی تبلیغ کی جاتی تو وہ حق کو قبول نہ کرتی۔ اس صورتحال کی وجہ سے قوم نوحؑ اپنے ”ہونے کے جواز“ سے محروم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے فناکردیا۔
شیطان ماحول کے جبرکی قوت سے آگاہ ہے۔ چنانچہ اس نے تاریخ کے ہردور میں ماحول کے جبرکی تخلیق پرتوجہ مرکوزکی ہے۔ ماحول کے جبرمیں طاقت اور دولت کا کرداربنیادی ہے۔ چنانچہ شیطان سیاسی وعسکری طاقت اور دولت کی قوت کو معاشرے کا محوربنادیتاہے یہاں تک کہ انہیں کوئی چیلنج کرنے والا باقی نہیں رہتا۔ لیکن شیطان صرف اتناکرنے پر اکتفا نہیں کرتا۔ وہ ماحول کے جبرکو نظام بنادیتاہے اور وہ ایسا اس لیے کرتاہے کہ باطل نظام بن کر ”فطری“ بھی نظرآتاہے۔ اس میں ”عظمت“ بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی ”عمر“ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ چند صدیوں کا تجربہ حیران کن ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں باطل نظام بن کر جس طرح مدلل صوت میں سامنے آیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً مغرب کی سیکولر فکرنے خدا اور مذہب کے انکار کو ایک باضابطہ فلسفہ بنادیا اور اسے عالمگیریت عطا کردی۔ اس طرح سوشلزم نے بھی خدا اور مذہب کے انکار کے لیے دلائل وبراہین پیدا کیے اور ایک عالمگیر نظام تخلیق کیا۔ اس کے نتیجے میں اربوں لوگ ایسے ہوگئے کہ ان تک ایمان کی روشنی پہنچنے کے امکانات بہت کم ہوں گے۔ بلاشبہ اس عرصے میں اہل مذہب نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ انہوں نے مذہب کو آفاقی قوت بنانے کے بجائے ”مقامیت“ کا اسیرکردیا۔ وہ مذہب کی انقلابیت کے بجائے اس کے تقلیدی پہلو کو اوڑھنا بچھونا بناکر بیٹھ گئے۔ چنانچہ خدا کے ساتھ ان کا تعلق ایک ”عادت “ بن گیا ۔ اگر انسان کو اس عادت کا شعور نہ ہوتو عادت کی تکرارعمل کے بوجھل پن کوبڑھاتی چلی جاتی ہے۔
nn
No comments:
Post a Comment