برما کے مظلوم مسلمان
عالم اسلام دوحصوں میں منقسم ہے۔ ایک مسلم اکثریت کے مماملک اور دوسرے وہ مسلمان آبادیاں جو اقلیت میں ہیں مسلم اکثریت کے مسلمان جابراورآمرحکمرانوں کے مظالم کا شکارہیں جبکہ کئی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتی آبادی اکثریت کے ظلم اور تعصب کا شکارہے۔ اقلیتی مسلمانوں میں سب سے زیادہ مظلوم بدھ اکثریت کے ملک میانمار(برما) کے صوبے اراکان میں آبادروہنگیا مسلمان ہیں۔ برما میں 1962ءمیں فوج اقتدارپرقابض ہوگئی تھی۔ اس ملک میں جمہوریت آگئی ہے‘ لیکن جمہوریت کے باوجود اراکانی مسلمانوں کے حالات بدسے بدترہوتے جارہے ہیں آٹھ لاکھ مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجربن کر کیمپوں میں محصورہونے پرمجبورکردیاگیاہے۔ کیمپوں میں بھی ان مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں ہے‘ بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کیمپوں میں محصورمسلمان خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے ہیں یہ کیمپ جیل سے بھی بدترشکل اختیارکرگئے ہیں۔ پولیس بھی ان پر تشددکرتی ہے اور اکثریتی آبادی بھی۔ اقوام متحدہ کے تمام اداروں نے تصدیق کی ہے کہ برماکے مسلمانوں کو مقامی دہشت گردوں کی جانب سے سنگین مظالم اور تعذیب وتشددکا سامنا ہے۔ برمی صدر اپنے ملک کے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ اراکانی مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں‘ اس لیے ان کے بچاﺅکا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ شہروں سے نکل کر مہاجربستیوں میں چلے جائیں‘ روہنگیا مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں۔ برمی صدرنے اس ڈھٹائی کا مظاہرہ اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین کے سامنے کیاہے۔ برما(میانمار) کی حکومت کے سربراہ کو یہ جرات صرف اس لیے ہوئی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اقوام متحدہ نے آج تک مسلمانوں کے کسی مسئلے کو حل نہیں کیاہے۔ ان کی فکرتو اسلامی کانفرنس تنظیم کو بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتوں پرعائد ہوتی ہے لیکن ان ممالک کے حکمران جب اپنے ہم وطنوں سے غافل ہوں گے تو دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی فکرکیسے کریں گے۔ پاکستان میں بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت نظرنہیں آرہی۔ہونا تویہ چاہیے کہ تمام مسلم ممالک میانمارکی متعصب اور ظالم حکومت سے ہرقسم کے تعلقات منقطع کرلیں اور میانمار پرپابندیاں عائدکردیں۔ ایران‘ عراق اور شام پر پابندیاں لگانے والے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کو برما کی مسلم اقلیت کا قتل عام نظرنہیں آرہا۔ اس کے بارے میں سلامتی کونسل میں قراردادکون پیش کرے گا؟لیکن مسلم ممالک کہاں سورہے ہیں؟
عالم اسلام دوحصوں میں منقسم ہے۔ ایک مسلم اکثریت کے مماملک اور دوسرے وہ مسلمان آبادیاں جو اقلیت میں ہیں مسلم اکثریت کے مسلمان جابراورآمرحکمرانوں کے مظالم کا شکارہیں جبکہ کئی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتی آبادی اکثریت کے ظلم اور تعصب کا شکارہے۔ اقلیتی مسلمانوں میں سب سے زیادہ مظلوم بدھ اکثریت کے ملک میانمار(برما) کے صوبے اراکان میں آبادروہنگیا مسلمان ہیں۔ برما میں 1962ءمیں فوج اقتدارپرقابض ہوگئی تھی۔ اس ملک میں جمہوریت آگئی ہے‘ لیکن جمہوریت کے باوجود اراکانی مسلمانوں کے حالات بدسے بدترہوتے جارہے ہیں آٹھ لاکھ مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجربن کر کیمپوں میں محصورہونے پرمجبورکردیاگیاہے۔ کیمپوں میں بھی ان مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں ہے‘ بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کیمپوں میں محصورمسلمان خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے ہیں یہ کیمپ جیل سے بھی بدترشکل اختیارکرگئے ہیں۔ پولیس بھی ان پر تشددکرتی ہے اور اکثریتی آبادی بھی۔ اقوام متحدہ کے تمام اداروں نے تصدیق کی ہے کہ برماکے مسلمانوں کو مقامی دہشت گردوں کی جانب سے سنگین مظالم اور تعذیب وتشددکا سامنا ہے۔ برمی صدر اپنے ملک کے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ اراکانی مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں‘ اس لیے ان کے بچاﺅکا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ شہروں سے نکل کر مہاجربستیوں میں چلے جائیں‘ روہنگیا مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں۔ برمی صدرنے اس ڈھٹائی کا مظاہرہ اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین کے سامنے کیاہے۔ برما(میانمار) کی حکومت کے سربراہ کو یہ جرات صرف اس لیے ہوئی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اقوام متحدہ نے آج تک مسلمانوں کے کسی مسئلے کو حل نہیں کیاہے۔ ان کی فکرتو اسلامی کانفرنس تنظیم کو بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتوں پرعائد ہوتی ہے لیکن ان ممالک کے حکمران جب اپنے ہم وطنوں سے غافل ہوں گے تو دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی فکرکیسے کریں گے۔ پاکستان میں بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت نظرنہیں آرہی۔ہونا تویہ چاہیے کہ تمام مسلم ممالک میانمارکی متعصب اور ظالم حکومت سے ہرقسم کے تعلقات منقطع کرلیں اور میانمار پرپابندیاں عائدکردیں۔ ایران‘ عراق اور شام پر پابندیاں لگانے والے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کو برما کی مسلم اقلیت کا قتل عام نظرنہیں آرہا۔ اس کے بارے میں سلامتی کونسل میں قراردادکون پیش کرے گا؟لیکن مسلم ممالک کہاں سورہے ہیں؟
No comments:
Post a Comment